بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا تین افراد پر مشتمل جماعت جمعہ و عیدین ادا کرسکتی ہے؟


سوال

یہاں سعودیہ میں مساجد بند ہیں،  ہم یہاں 3 آدمی ایک مسجد میں نماز پڑھتے ہیں،  کیا ہم جمعہ اور عید کی نماز پڑھ  سکتے ہیں؟ (نوٹ مسجد باہر سے بند رہتی ہے،  یہاں امام صاحب پاکستانی ہے، اس نے ہم کو چابی دی ہوئی ہے)

جواب

جمعہ  کی نماز صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط امام کے علاوہ تین مرد  مقتدی ہونا ہے، لہذا مسئولہ صورت میں اگر امام سمیت صرف تین افراد ہوں تو  جمعہ قائم نہیں کرسکتے ایسی صورت میں انفرادی طور پر ظہر کی نماز ادا کرلی جائے۔

البتہ عید کی نماز کی جماعت کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد ہونا کافی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عید کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

موجودہ حالات میں عید کی نماز گھروں میں ادا کرنے کا حکم اور طریقہ

النهر الفائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"وفي (جامع قاضي خان): وإذا ثبت اختصاص التكبير بالمصر علم أنه من الشعائر بمنزلة الخطبة فيشترط له ما يشترط للجمعة، إلا ما سقط اعتباره من السلطان والحرية في الأصح والخطبة كذا في (المعراج)، وعليه جرى الشارح قال في (البحر): وليس بصحيح إذ ليس الوقت والإذن العام من شروطه.

وأقول: بل هو الصحيح؛ إذ من شرائطه الوقت أعني أيام التشريق حتى لو فاتته الصلاة في أيامه فقضاها في غير أيامه أو في أيامه من القابل لا يكبر بخلاف ما إذا قضاها في أيامه من تلك السنة حيث يكبر لأنه لم يفت عن وقته من كل وجه.

وإذا لم يشترط السلطان أو نائبه فلا معنى لاشتراط الإذن العام وكأنهم استغنوا بذكر السلطان عنه، على أنا قدمنا أن الإذن العام لم يذكر في الظاهر. نعم بقي أن يقال: من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، فكيف يصح أن يقال: إن شروطه الجمعة. وهذا كله قول الإمام، وقالا: هو على كل من يصلي المكتوبة/ لأنه تبع لها.

والفتوى على قولهما في هذا أيضًا كما في (السراج) ( باب صلاة العيدين، ١ / ٣٧٣، ط: دار الكتب العلمية)

الفقه علي المذاهب الأربعة  میں ہے:

"الحنفية قالوا: صلاة العيدين واجبة في الأصح على من تجب عليه الجمع بشرائطها، سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحة، إلا أنه يستثنى من شرائط الصحة الخطبة، فإنها تكون قبل الصلاة في الجمعة وبعدها في العيد، ويستثنى أيضاً عدد الجماعة، فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام، بخلاف الجمعة، وكذا الجماعة فإنها واجبة في العيد يأثم بتركها، وإن صحت الصلاة بخلافها في الجمعة، فإنها لا تصح إلا بالجماعة، وقد ذكرنا معنى الواجب عند الحنفية في "واجبات الصلاة" وغيرها، فارجع إليه". (مباحث صلاة العيدين، حكم صلاة العيدين، ووقتهما، ١ / ٣١٣، ط: دار الكتب العلمية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109202461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں