کیا زکوٰۃ کے پیسوں کا مصرف ، مدارس اسلامیہ کے طلباء کو ختم بخاری یا تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر کپڑے مثلاً رومال یا چادر لے کر تحفہ کے طور پر دیا جاسکتا ہے؟
واضح رہے کہ زکات کا مستحق وہ شخص ہے جس کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں مدارسِ دینیہ کے طلبہ کو ختم بخاری یا تکمیلِ حفظ ِقرآن کے موقع پر کپڑے یا کسی اور شکل میں تحفہ بطور زکات ادا ہوجائے گی، زکات کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن طلبہ کو تحفہ دیا جاریا ہو وہ اگر بالغ ہوں تو وہ نصاب کے بقدر مال(یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) یا سامان کے مالک نہ ہو ں اور سید/ہاشمی بھی نہ ہو، اور اگر وہ نابالغ ہوں تو زکات کی ادائیگی کی صحت کے لیے ان کے والد کا مستحقِ زکات (تمام شرائط کے ساتھ) ہونا ضروری ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسكين من لا شيء له)".
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوۃ والعشر، 339/2، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية."
(کتاب الزکوۃ،171/1،ط: رشیدیۃ)
وفیه ایضاً:
"ولايجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير، كذا في التبيين. ولو كان كبيراً فقيراً جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرةً، وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنياً؛ لأن قدر النفقة لايغنيها، وبغنى الأب والزوج لاتعد غنية، كذا في الكافي."
(کتاب الزکوٰۃ،189/1،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308102116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن