جیسے تیجہ، چالیسواں وغیرہ جو میت کے ایصالِ ثواب کے لیے ہوتے ہیں، ان میں دن کی قید لگائی جاتی ہے تو یہ بدعت بن جاتے ہیں، تو تبلیغی جماعت میں بھی تو اکثر دن کی قید ہوتی ہے، جیسے تین دن کی جماعت، چالیس دن کی جماعت وغیرہ؛ تو جماعت بدعت کیوں نہیں؟
تبلیغی جماعت کی مروجہ ترتیب کو تیجے، چالیسویں، برسی وغیرہ کی غیر شرعی رسومات پر قیاس کرکے بدعت قرار دینا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ اول تو تبلیغ اور دعوت کا کام، اور اس کے لیے مسلمانوں کا انفرادی واجتماعی طور پر نکلنا، قرونِ اولیٰ سے ثابت ہے، دوم یہ کہ تبلیغی جماعت میں کسی دن کی ایسی تعیین نہیں ہے کہ اس دن کو جماعت میں نکلنا لازمی وضروری سمجھا جاتا ہو، بلکہ ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جب اور جتنا وقت جماعت میں لگانا چاہے لگا لے، سوم یہ کہ اصلاحِ نفس ومعاشرے کے لیے جماعت کی تشکیل کردہ ترتیب کو لازمی قرار نہیں دیا جاتا، بلکہ جماعت کے بزرگوں کی طرف سے برملا یہ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ دین کی محنت اور اصلاح ِ نفس ومعاشرہ کے لیے تبلیغی جماعت ایک انتہائی مفید اور آسان ترین راستہ ہے، لیکن اس کے باوجود مذکورہ مقاصد کا حصول صرف تبلیغی جماعت میں منحصر نہیں ہے، اسی طرح مروجہ تیجہ، چالیسواں وغیرہ جیسی رسومات میں جو مفاسد پائے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک مفسدہ بھی تبلیغی جماعت میں نہیں پایا جاتا۔
نیز جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےدورمیں کسی خاص دینی کام کے لیے کسی مدت کی تعیین نہیں ملتی، اسی طرح دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے سہ روزہ، چلہ، چار ماہ یا سال کی مدت کی تعیین بھی موجود نہیں ہے، تاہم مذکورہ مدت کے لیے جماعت پر جانا ان دنوں کی گنتی میں پائی جانے والی حکمتوں کے حصول کے لیے ہوتا ہے،مثلاً تین دن اس اعتبار سے کہ اللہ تعالی ہر نیکی کابدلہ کم از کم دس گنا تک بڑھا کردیتے ہیں، یوں اخلاص کےساتھ ہر ماہ سہ روزہ لگانے والا گویا پورے مہینے، اوریوں پوری زندگی تبلیغ کےعمل سے جڑا ہوا ہے، اسی طرح چلہ (چالیس دن) کے انتخاب کی وجہ یہ ہےکہ ان دنوں کوانسانی مزاج اوراخلاق کے تغیروتبدل میں خاص دخل حاصل ہے، اس کی تائید مندرجہ ذیل امور سےہوتی ہے:
1) انسان کی تخلیق ماں کے رحم میں مختلف مراحل میں ہوتی ہے،چالیس دن وہ نطفہ کی صورت میں ہوتا ہے،اس کے بعد وہ جمے ہوئے خون کی صورت اختیار کرتا ہے، پھر چالیس دن بعد گوشت کا ایک معمولی سا ٹکڑا، اور پھر چالیس دن ہڈیاں بنتی ہیں، اور اس میں روح پھونکی جاتی ہے، یہ ہر مرحلہ چالیس دن کا ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چالیس دن کا عرصہ انسان کی تخلیق میں اہمیت کا حامل ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق: "إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يوما ثم يكون في ذلك علقة مثل ذلك ثم يكون في ذلك مضغة مثل ذلك ثم يرسل الملك فينفخ فيه الروح ويؤمر بأربع كلمات ... الخ."
(باب الإيمان بالقدر، الفصل الأول، ١/ ٣١، ط: المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صادق ومصدوق سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےہم سےفرمایا:"تم میں سے ہرشخص کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ(پہلے) اس کا نطفہ ماں کےپیٹ میں چالیس دن جمع رہتاہے، پھراتنے ہی دنوں (یعنی چالیس دن) کےبعد وہ جماہوا خون بنتا ہے،پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہوجاتا ہے، پھر خداوند تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لیے بھیجتا ہے ۔۔۔ الخ۔"
(ازمظاہرِ حق)
2)سیدنا حضرت موسی علی نبینا وعلیہ السلام سے تورات کے لیے چالیس دنوں کا اعتکاف کرایا گیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً"
(الأعراف: ١٤٢)
ترجمہ:"اورہم نےموسی سےتیس شب کاوعدہ کیااوردس شب کوان تیس راتوں کاتتمہ بنادیا،سوان کےپروردگارکاوقت پورےچالیس شب ہوگیا۔"
3) مسجد نبوی میں چالیس نمازیں اداکرنے کی خصوصی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من صلى في مسجدي أربعين صلاة، لا يفوته صلاة، كتبت له براءة من النار، ونجاة من العذاب، وبرئ من النفاق."
(مسندأحمد، ٢٠/ ٤٠، ط: مؤسسة الرسالة)
ترجمہ: "جس شخص نے میری مسجد(مسجد نبوی)میں چالیس نمازیں اس طرح پڑھیں کہ (درمیان میں)کوئی نماز فوت نہ ہو تو اس کے لیے آگ سے براءت،اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے ار وہ نفاق سے بری ہے۔"
لہٰذا جوشخص چالیس دن تک مسجد کے ماحول سے جڑا رہےگا،ایمان کی دعوت سنتا اور دیتا رہے گا، وہ اللہ کے حکم سے دین میں ترقی کرتا رہے گا، چارماہ میں تین چلے، سات ماہ میں تقریباً 5چلے، اور سال میں نو چلے بنتے ہیں، یوں 40،40 دن مسجد کےماحول سےجڑنا انسان کو دین کےقریب اور اس میں مزید مستحکم کرنے کے لیے ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہےکہ سہ روزہ، چلہ ،چار مہینے اور سال وغیرہ کی مذکورہ ترتیب، امرِ تبلیغ پر عمل کرنے، اور دین سیکھنے سکھانے کے لیے محض انتظامی طور پر اختیار کی گئی ہے، اس کو شرع سے ثابت شدہ مقصود بالذات سمجھ کر نہیں کیا جاتا، اکابر و مشائخ کےتجربات سے اس مخصوص ترتیب کا فائدہ مند ہونا ثابت ہے، اس لیے سہ روزہ ، چلہ،چار مہینے اور سال وغیرہ کی ترتیب میں کوئی حرج نہیں، تاہم اگر کوئی شخص فی نفسہ ان ایامِ مخصوصہ کے لگانےیا ان کی مخصوص ترتیب کو ہی دین سمجھ کر عمل کررہا ہو، تو شرعاً یہ درست نہیں ہے۔
فیض الباری میں ہے:
"عن أبى وائل قال كان عبد الله يذكر الناس فى كل خميس، فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل يوم. قال أما إنه يمنعنى من ذلك أنى أكره أن أملكم، وإنى أتخولكم بالموعظة كما كان النبى - صلى الله عليه وسلم - يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا. يريد أن مثل هذه التعينات لا تعد بدعة، والبدعة عندي ما لا تكون مستندة إلى الشرع، وتكون ملتبسة بالدين ولذا يقال إن الرسوم التي جرت في المصائب بدعة دون التي في مواضع السرور، كالأنكحة وغيرها فإن الأولى تعد كأنها من الدين فتلتبس به بخلاف الثانية. والسر فيه أن رسوم المسرات أكثرها تكون من باب اللهو واللعب فلا تلتبس بالدين عند سليم الفطرة، بخلاف رسوم نحو الموت فإن غالبها يكون من جنس العبادات فيتحقق فيها الإلتباس."
(کتاب العلم، ٢/ ٢٥٢، ط: دارالکتب العلمية)
ترجمہ: "حضرت ابو وائل ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لوگوں کو ہر جمعرات کے دن وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے، ایک دن کسی نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! ہم آپ کے بیان کو بہت پسند کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہر دن وعظ وبیان کیا کریں، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے لیے کوئی مانع نہیں، البتہ مجھے ناپسند ہے کہ میں تم لوگوں کو اکتا دوں، میں اسی طرح تمہاری ذہنی تربیت کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری ذہنی تربیت فرمایا کرتے تھے، کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ اس طرح کی تعینات بدعت شمار نہیں کی جاتیں، اور بدعت تو میرے نزدیک وہ ہے جو کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو، اور دین کو مشتبہ کرنے والی ہو، اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ جو رسومات مصیبت کے مواقع پر ایجاد ہوئی ہیں وہ بدعت ہیں برخلاف ان کے جو خوشی کے موقع پر کی جاتی ہیں،جیسا کہ شادی بیاہ وغیرہ؛ کیوں کہ پہلی قسم کی رسومات کو دین کا حصہ شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اس سے دین مشتبہ ہوجاتا ہے، برخلاف دوسری قسم کی رسومات کے، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ خوشی کے مواقع کی اکثر رسومات لہو ولعب پر مبنی ہوتی ہیں لہٰذا وہ سلیم الفطرت شخص کے نزدیک دین کے ساتھ خلط نہیں ہوتیں، برخلاف موت میت کے وقت کی جانے والی رسومات کے کہ ان میں سے اکثر رسومات عبادات کی جنس میں سے ہیں، لہٰذا اس سے دین میں اشتباہ پیدا ہوجاتاہے۔ "
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایسے امور کے ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ خلاف شرع نہ ہوں۔‘‘
(تبلیغی جماعت مفتی محمود حسن گنگوہی کے فتاوی کی روشنی میں، ص:٦٥، ط: ادارہ رشید)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
’’سوال: مروجہ تبلیغی جماعت جس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب ہیں، لوگوں کو چلہ یعنی چالیس دنوں کا انتظام کرکے تربیت دیتے ہیں، آیا یہ چلہ رسم بدعت ہے یا مستحسن؟
جواب:جس نیک کام پر چالیس روز پابندی کی جائے اس پر بہت اچھے ثمرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں اور اس کام سے خاص قلبی لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے، یہ بات حدیث شریف سے ثابت ہے ، اور بہت سے اکابر و مشائخ کا تجربہ بھی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘
(کتاب الایمان، باب التبلیغ، تبلیغی چلہ کا حکم،٤/ ٢٢٢،ط:ادارۃ الفاروق)
شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار سے متعلق لکھتے ہیں:
’’دین کی دعوت و تبلیغ تو اعلیٰ درجے کی عبادت ہے، اور قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں جابجا اس کی تاکید موجود ہے، دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے جماعتِ تبلیغ وقت فارغ کرنے کا جو مطالبہ کرتی ہے، وہ بھی کوئی نئی ایجاد نہیں، بلکہ ہمیشہ سے مسلمان اس کے لیے وقت فارغ کرتے رہے ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبلیغی وفود بھیجنا ثابت ہے۔ رہی سہ روزہ، ایک چلہ، تین چلہ اورسات چلہ کی تخصیص، تو یہ خود مقصود نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مسلمان دین کے لیے وقت فارغ کرنے کے تدریجاً عادی ہوجائیں اوران کورفتہ رفتہ دین سے تعلق اور لگاؤ پیداہوجائے، پس جس طرح دینی مدارس میں نوسالہ، سات سالہ کورس (نصاب) تجویز کیا جاتا ہے، اور آج تک کسی کو اس کے بدعت ہونے کا وسوسہ بھی نہیں، اسی طرح تبلیغی اوقات کو بھی بدعت کہناصحیح نہیں۔‘‘
( آپ کے مسائل اور ان کا حل، ٩/ ١٤٥، ط:مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502100534
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن