بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم سے غیر مسلم کا علاج کرنا


سوال

کیا سود کے پیسے سے غیر مسلم کا علاج کرا سکتے ہیں؟

جواب

 حرام مال اگر اصل مالک یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء  کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر  فقراء پر  صدقہ کرنا واجب  ہوتا ہے،  کافر فقیر کو بھی ایسا مال دے سکتے ہیں، تاہم مسلمان فقراء پر صدقہ اولی ہے۔

 بصورتِ مسئولہ  مذکورہ غیر  مسلم شخص اگر محتاج ہو تو ایسی صورت میں سودی رقم اسے دے سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا علاج کرائے بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:

دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

المصنف لابن ابی شیبہمیں ہے:

"عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة على غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزكاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس".

( ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، ٦ / ٥١٣، رقم: ١٠٤١٠)  

المجموع شرح المهذب للنووی میں ہے:

{فَرْعٌ} يُسْتَحَبُّ أَنْ يَخُصَّ بِصَدَقَتِهِ الصُّلَحَاءَ وَأَهْلَ الْخَيْرِ وَأَهْلَ الْمُرُوءَاتِ وَالْحَاجَاتِ فَلَوْ تَصَدَّقَ عَلَى فَاسِقٍ أَوْ عَلَى كَافِرٍ مِنْ يَهُودِيٍّ أَوْ نَصْرَانِيٍّ أَوْ مَجُوسِيٍّ جَازَ."

(باب زكوة الذهب و الفضة، باب قسم الصدقات، ٦ / ٢٤٠، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں