بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اسکول کی بقایا فیس جو ابھی تک وصول نہیں ہوئی اس پر زکاۃ ہے؟


سوال

 ہمارا ایک ا سکول ہے جس میں بہت لوگوں کي  فیس کی بقایاجات  ہوتي ہیں، لیکن اس فیس کے بارے میں ہمیں یہ پتا نہیں کہ کب ہم کو ادا کی جائے گی ، کیا اس میں زکات ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ اسکول والوں کی   جو فیس والدین کے ذمے میں باقی رہ جاتی ہے ،اس کی حیثیت دینِ ضعیف کی ہے ،جس کا حکم یہ ہے کہ جب تک وہ فیس  نصاب  کے بقدر وصول نہ کر لی جائے ،اور  اس پر سال نہ گزر جائے ،اس وقت تک اس پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی،البتہ اگر کوئی شخص پہلے سے ہی صاحبِ نصاب چلا آرہا ہو ،تو جتنی فیس وصول کرتا جائے گا ،اس کی زکاۃ دیگر نصاب کے ساتھ ملا کر اد کرنا لازم ہو گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک مذکورہ فیس  بقدرِ نصاب وصول نہیں ہو جاتی ،اور اس پر سال نہیں گزرتا ،اس وقت تک اس پر زکاۃ لازم نہیں ہو گی ،البتہ اگر سائل پہلے سے ہی صاحب  ِ نصاب ہو ،تو جس قدر  یہ فیس وصول ہوتی جائےگی ،دیگر اموالِ زکاۃ کے ساتھ اس  فیس کی رقم کو بھی اس کے ساتھ  ملا کر سائل پر حسبِ ضابطہ زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما سائر الدیون المقر بها، فهي علی ثلاث مراتب عند أبی حنیفة : ضعیف وهو کل دین ملكه بغیر فعله لا بدلا عن شيء نحو المیراث، أو بفعله لا بدلا عن شيء کالوصیة ، أو بفعله بدلاً عما لیس بمال کالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدیة وبدل الکتابة لا زكاة فیه عندہ حتی یقبض نصاباً ویحول علیه الحول."

(كتاب الزكاة، ج:1، ص:175، ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين ‌قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا.

وعند أبي يوسف ومحمد كلما قبض شيئا يؤدي زكاته قل المقبوض أو كثر.

وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.

وأما الدين الوسط فما وجب له بدلا عن مال ليس للتجارة كثمن عبد الخدمة، وثمن ثياب البذلة والمهنة وفيه روايتان عنه، ذكر في الأصل أنه تجب فيه الزكاة قبل القبض لكن لا يخاطب بالأداء ما لم يقبض مائتي درهم فإذا قبض مائتي درهم زكى لما مضى، وروى ابن سماعة عن أبي يوسف عن أبي حنيفة أنه لا زكاة فيه حتى يقبض المائتين ويحول عليه الحول من وقت القبض وهو أصح الروايتين عنه، وقال أبو يوسف ومحمد: الديون كلها سواء، وكلها قوية تجب الزكاة فيها قبل القبض إلا الدية على العاقلة ومال الكتابة فإنه لا تجب الزكاة فيها أصلا ما لم تقبض ويحول عليها الحول."

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411101320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں