بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا صرف سجدہ والی آیت پڑھنے سے سجدۂ تلاوت لازم ہوگا یا نہیں؟ سجدۂ تلاوت کی تعداد معلوم نہ ہو تو کیا کیا جائے؟


سوال

اگر قرآن میں صرف سجدہ والی آیت پڑھی تو اس پر سجدہ لازم ہوگا یا نہیں؟ اور ابھی پتا نہیں کہ کتنے سجدے کرنے ہیں؟ کیا زیادہ سجدے ہوں تو کیا گناہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر صرف سجدہ والی آیت پوری پڑھی جائے تو اس سے بھی سجدہ تلاوت لازم ہوجاتا ہے، اوراگر کسی کے اوپر کئی سجدے لازم ہوں اور تعداد یاد نہ ہو کہ کتنے سجدے ہیں تو اس شخص پر لازم ہے کہ غور و فکر کرکے، غالب گمان کے ذریعے اندازہ لگا کر ایک تعداد مقرر کرے اور پھر احتیاطاً اس تعداد سے چند سجدے زیادہ کرلے، سجدہ تلاوت کے ادا کرنے میں دیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر پوری زندگی یہ سجدے نہ کیے اور انتقال ہوگیا تو اس صورت میں واجب چھوڑنے پر گناہ گار ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) بسبب (تلاوة آية) أي أكثرها مع حرف السجدة (من أربع عشرة آية)... (بشرط سماعها) فالسبب التلاوة وإن لم يوجد السماع، كتلاوة الأصم  والسماع شرط في حق غير التالي."

(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ج: 2، ص: 103 - 104، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيها، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤديا.

وفي حاشيته: (قوله على المختار) كذا في النهر والإمداد، وهذا عند محمد وعند أبي يوسف على الفور هما روايتان عن الإمام أيضا كذا في العناية قال في النهر: وينبغي أن يكون محل الخلاف في الإثم وعدمه حتى لو أداها بعد مدة كان مؤديا اتفاقا لا قاضيا. اهـ. قال الشيخ إسماعيل وفيه نظر أي لأن الظاهر من الفور أن يكون تأخيره قضاء. قلت: لكن سيذكر الشارح في الحج الإجماع على أنه لو تراخى كان أداء مع أن المرجح أنه على الفور ويأثم بتأخيره فهو نظير ما هنا تأمل."

(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ج: 2، ص: 109، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں