بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شادی کے وقت ہی مہر کی ادائیگی ضروری ہے؟


سوال

کیا شادی کے وقت حقِ مہر کی ادائیگی ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

1۔ مہرِ معجل: معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد ذمہ میں واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل  ہوتا ہے۔

2۔ مہرِ مؤجل: مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو،  اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن اگر مہر مؤجل کے لیے نہ تو کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو  یا نہ ہی بیوی کے مطالبہ پر موقوف کیا گیا ہو، تو پھر اس صورت میں اس کی ادائیگی طلاق یا موت کی وجہ سے فرقت (جدائی) کے وقت لازم ہوگی۔

لہذا اگر مہر کو معجل رکھا گیا ہو، تو پھر شادی کے وقت ہی اس کی ادائیگی لازم ہوگی، اور اگر مؤجل رکھا گیا ہو تو پھر شادی کے وقت فی الفور اس کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن ‌بينوا ‌قدر ‌المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئا ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلا ولا يقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلا ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان... وإذا كان المهر مؤجلا أجلا معلوما فحل الأجل ليس لها أن تمنع نفسها لتستوفي المهر على أصل أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - كذا في البدائع... ولو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع. لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لا يتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الحادي عشر في منع المرأة نفسها بمهرها والتأجيل في المهر، ج: 1، ص: 318، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں