بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سال گرہ کے دن روزہ رکھنا سنت ہے؟


سوال

کیا سال گرہ کے دن روزہ رکھنا سنت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ’’سنت‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے، اسلام کے ابتدائی عہد میں جب تک علماءِ اُصول نے اصطلاحات مقرر نہیں کی تھیں، اس وقت ’’سنت‘‘ کا اطلاق ہر اس قول و فعل اور تقریر پر ہوتا رہا، جس کی نسبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، یعنی وہ عمل کرنے کا حکم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول سے تعلیم فرمایا ہو، یا اپنے عمل سے امت کو تعلیم دے ہو، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی صحابی نے کوئی عمل کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار کرکے اس کی تصویب فرمائی ہو۔

تاہم اَصحابِ اُصول و فقہاءِ کرام کے ہاں اصطلاحات مقرر ہوجانے کے بعد :   "ہر وہ فعل جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبادت کی حیثیت سے ہمیشہ کیا ہو اور کبھی کبھار بغیر کسی عذر کے اس کو چھوڑا بھی ہو"  ’’سنت‘‘  کہلاتا ہے۔  جیساکہ  ’’قواعد التحدیث لعلامہ جمال الدین قاسمی‘‘ میں  ہے:

’’ تنبیه - ذکرنا أن السنة لغةً: الطریقة، والمراد بها في اصطلاح الشارع وأهل عصره ما دل علیه دلیل من قوله صلی اللّٰه علیه وسلم أو فعله أو تقریره. ولهذا جعلت السنة مقابلة للقرآن، وبهذا الاعتبار تطلق علی الواجب، کما تطلق على المندوب، وأما ما اصطلح علیه الفقهاء وأهل الأصول من أنها خلاف الواجب فهو اصطلاح حادث وعرف متجدد‘‘.  (قواعد التحدیث،ص:۱۴۶)

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: و سننه الخ) إِنَّ الْمَشْرُوعَاتِ أَرْبَعَةُ أَقْسَامٍ: فَرْضٌ، وَوَاجِبٌ، وَسُنَّةٌ، وَنَفْلٌ. فَمَا كَانَ فِعْلُهُ أَوْلَى مِنْ تَرْكِهِ مَعَ مَنْعِ التَّرْكِ إِنْ ثَبَتَ بِدَلِيلٍ قَطْعِيٍّ فَفَرْضٌ، أَوْ بِظَنِّيٍّ فَوَاجِبٌ، وَبِلاَ مَنْعِ التَّرْكِ إِنْ كَانَ مِمَّا وَاظَبَ عَلَيْهِ الرَّسُول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوِ الْخُلَفَاءُ الرَّاشِدُونَ مِنْ بَعْدِهِ فَسُنَّةٌ، وَإِلاَّ فَمَنْدُوبٌ وَنَفْلٌ". (كتاب الطهارة، ١ /  ٢١٨،  قبيل : مطلب في السنة و تعريفها،  ط: دار عالم الكتب)

پس پیدائش کے موقع پر مروجہ طریقہ پر  ساگرہ منانا اغیار کا طریقہ ہے، اسلام میں ساگرہ منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، اور نہ ہی اس موقع پر روزہ رکھنا  یا کسی قسم کی عبادت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور سنت سمجھ کر خاص اس دن روزہ رکھنا بدعت واجب الترک ہے۔

البتہ  پیر اور جمعرات کے دن اسی طرح سے ہر  ماہ ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ،  چودہ اور پندرہ تاریخوں میں نفلی روزے رکھنا، شوال کے چھ روزے رکھنا، عاشورہ کا روزہ دیگر نفلی روزے سنت سے ثابت ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں