اسلام میں اللہ پر رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھنا نجات کے لیے ضروری ہے ،اگر کوئی شخص اس عقیدے میں تبدیلی کرے اوریہ کہے کہ اصل ایمان اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنا ہے،اورجو بھی ان دونوں چیزوں پر ایمان لےآئے وہ نجات یافتہ ہے چاہیےوہ یہودی ہو عیسائی ہو یا مسلمان ،پھر وہ یہ کہے آپ نہیں دیکھتے کہ سورہ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ
اس آیات میں صرف ان دو چیزوں (اللہ پر ایمان اوراخرت پر ایمان )کو شرط قراردیا گیا ہے ،
اب اس عقیدے کے اعتبار سے چند سوالات ہیں :
1۔ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو اس عقیدے کو اپنا تا ہے ؟کیا وہ مسلمان کہلائے گا ؟
2۔اگر کوئی شخص کہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے اور بعض علماء کے نزدیک ایسا شخص نجات یا فتہ ہے او ر بعض کے نزدیک نہیں تو اس شخص کا کیا حکم ہے ؟کیا وہ مسلمان رہےگا ؟
اگر کوئی مسلمان جو حافظ قرآن ہو اور دین سے اچھی طرح واقف ہو کہے کہ مجھے اس مسئلہ کے بارے میں علم نہیں ہے تو اس کا کیاحکم ہے؟کیاضروری دینی علم کا نہ جاننا کفر کے زمرے آتا ہے؟
ان تمام صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟اورکیا اسے امام بنانا درست ہے؟
1۔جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اصل ایمان اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنا ہے،رسالت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے تو ایسا عقیدہ رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے؛ کیوں کہ آپ ﷺ کے آنےسے سابقہ ادیان یہود ونصاری منسوخ ہوگئے ہیں،رسالت محمدی ﷺپرایمان پرلانا ضروری ہے،اب اگر کوئی شخص یہود یت عیسائیت پر برقرارر ہے اورآپ ﷺ کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو وہ یہودی ،عیسائی تو ہو سکتا ہے مسلمان ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
2۔اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسالت محمدیﷺپر ایمان لانا ضروری ہے، یہ ضروریات دین میں سے ہے ،اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے،اگر کسی کا اختلاف ہوبھی تو شرعاًمعتبرنہیں ہے ،لہذ کسی شخص کایہ کہنا کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ بعض علماء کے نزدیک ایسا شخص نجات یا فتہ ہے او ر بعض کے نزدیک نہیں، یہ درست نہیں،البتہ صرف یہ کہنے سے کفر لازم نہیں آتا ،لیکن اگر عقیدہ یہ ہو کہ رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے تویہ شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
3۔اگر کوئی شخص ضروریات دین سے ناوقف ہو تو اس سے وہ کا فر نہیں ہوگا جب تک وہ ضروریات دین کا صریح انکار نہ کرے ۔
4۔پہلا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ،اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، اوردوسراشخص کافرنہیں، لیکن اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ رسالت پر ایمان لانا ضروری نہیں تو یہ شخص بھی مسلمان نہیں ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ،تیسرے شخص کے پیچھے نماز جائز ہے،لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کی جگہ کسی عالم دین کو امام بنایا جائے،جو ضروریات دین کا علم رکھتاہواور جو ضروریا ت دین سے ناوقف ہو اس کو امام نہ بنایا جائے
معارف القرآن میں مولانا ادریس کاندھلوی صاحب رحمۃاللہ علیہ اس آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ سورة البقرة آيات( 62)
” آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فقط اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانا نجات کے لیے کافی ہے، انبیا ء اور ملائکه و غیرہ پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ قرآن کریم کی صدہا نصوص اس بات پر صراحتاً دال ہیں کہ جو شخص انبیاء اور ملائکہ کا انکار کرے وہ قطعا کافر ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ سلسلہ ایمان میں جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اول سے آخر تک سب پر ایمان لائے چونکہ سلسلہ ایمان کی ابتداء اللہ سے ہوتی ہے اور انتہار آخرت پر ہے اس لیے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی تخصیص کی گئی۔ جیسا کہ رب المُشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ میں ابتداء اور انتہاء کو ذکر کر کے تمام سلسلہ مراد ہے، نیز اللہ اور یوم آخرت پرایمان لانا اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک انبیاء اور ملائکہ اور صحف سماویہ پر ایمان نہ لائے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور آخرت کے احوال کی معرفت کا ذریعہ انبیاء اور صحف الہیہ ہی ہیں اور وحی اور صحیفہ ربانی کا نزول فرشتہ کی وساطت سے ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہےکہ ایمان باللہ اور ایمان بیوم الآخرت موقوف ہے ایمان بالا نبیاء اور ایمان بالملائکہ اور ایمان بالکتب پر اس لیے ان تین چیزوں پر ایمان لانے کو علیحدہ بیان نہیں کیا گیا۔“
معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ اس آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
" إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورة البقرة آيات: 62)
خلاصہ تفسیر: اس مقام پر یہودیوں کی شرارت کا حال معلوم کر کے سامعین کو یا خود یہود کو یہ خیال گزر سکتا ہے کہ ان حالات میں اگر عذر پیش کر کے ایمان لانا بھی چاہیں تو غالباً وہ اللہ کے نزدیک قبول نہ ہو، اس خیال کو دفع کرنے کے لئے اس آیت میں ایک قانون اور ضابطہ کا ذکر فرمایاکہ یہ تحقیقی بات ہے کہ مسلمان، یہودی اور نصاری اور فرقہ صابئین ان سب میں جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر اور قیامت پر اور کارگذاری اچھی کرے ( موافق قانون شریعت کے) ایسوں کے لئے ان کا حق الخدمت بھی ہے اُن کے پروردگار کے پاس پہنچ کر) اور (وہاں جا کر)کسی طرح کا اندیشہ بھی نہیں ان پر، اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔
فائدہ : ۔ قانون کا حاصل ظاہر ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے ہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے ، اور ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے بعد پوری اطاعت، اطاعت محمدی یعنی مسلمان ہونے میں منحصر ہے، مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہو جائے گامستحق نجات اخر وی ہوگا، اس میں اس خیال کا جواب ہو گیا، یعنی ان شرارتوں کے بعد بھی اگر مسلمان ہو جائیں تو ہم سب معاف کر دیں گے۔ اور صابئین ایک فرقہ تھا جس کے معتقدات اور طرز عمل کے بارے میں چونکہ کسی کو پورا پتہ نہ چلا اس لئے مختلف اقوال ہیں ، واللہ اعلم ۔ اور اس قانون میں بظاہر تو مسلمانوں کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہ تو مسلمان ہیں ہی لیکن اس سے کلام پاک میں ایک خاص بلاغت اور مضمون میں ایک خاص وقعت پیدا ہو گئی اسکی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے ہی موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے کوئی موافق ہو یا مخالف، جو شخص بھی اطاعت کرے گا مورد عنایت ہوگا ، اب ظاہر ہے کہ موافق تو اطاعت کر ہی رہا ہے سنانا تو اصل میں مخالف کو ہے ، لیکن اس میں نکتہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو جو موافقین پر عنایت ہے سو اس کی علت اُن سے کوئی ذاتی خصوصیت نہیں، بلکہ ان کی صفت موافقت پر مدار ہے ہماری عنایت کا سو اگر مخالف بھی ختیار کرلے تو وہ بھی اس موافق کے برابر ہو جائے گا، اس لئے مخالف کے ساتھ موافق کو بھی ذکر کر دیا گیا۔"
تفسير الطبري میں ہے:
"{إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين} [البقرة: 62] قيل: تمامه جملة قوله: {من آمن بالله واليوم الآخر} [البقرة: 62] لأن معناه: من آمن منهم بالله واليوم الآخر فترك ذكر منهم لدلالة الكلام عليه استغناء بما ذكر عما ترك ذكره. فإن قال: وما معنى هذا الكلام؟ قيل: إن معناه: إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين من يؤمن بالله واليوم الآخر فلهم أجرهم عند ربهم. فإن قال: وكيف يؤمن المؤمن؟ قيل: ليس المعنى في المؤمن المعنى الذي ظننته من انتقال من دين إلى دين كانتقال اليهودي والنصراني إلى الإيمان، وإن كان قد قيل إن الذين عنوا بذلك من كان من وأما إيمان اليهود والنصارى والصابئين، فالتصديق بمحمد صلى الله عليه وسلم، وبما جاء به، فمن يؤمن منهم بمحمد، وبما جاء به واليوم الآخر، ويعمل صالحا، فلم يبدل ولم يغير، حتى توفي على ذلك، فله ثواب عمله وأجره عند ربه، كما وصف جل ثناؤه"
(سورۃ البقرۃ :آیات :62،ج:2،ص:39،ط:دار عالم الكتب بالرياض)
تفسير الرازي میں ہے:
"إن الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن ببعض ونكفر ببعض ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا أولئك هم الكافرون حقا وأعتدنا للكافرين عذابا مهينا.
فقال: إن الذين يكفرون بالله ورسله فإن اليهود آمنوا بموسى والتوراة وكفروا بعيسى والإنجيل، والنصارى آمنوا بعيسى والإنجيل وكفروا بمحمد والقرآن ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله أي يريدون أن يفرقوا بين الإيمان بالله ورسله ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا أي بين الإيمان بالكل وبين الكفر بالكل سبيلا أي واسطة، وهي الإيمان بالبعض دون البعض.ثم قال تعالى: أولئك هم الكافرون حقا."
(سورة النساء ،آيات:152،ج:11،ص:255،ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
تفسير الرازي میں ہے:
"آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون كل آمن بالله وملائكته وكتبه ورسله لا نفرق بين أحد من رسله وقالوا سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير
اعلم أن هذه الآية دلت على أن معرفة هذه المراتب الأربعة من ضرورات الإيمان.
فالمرتبة الأولى: هي الإيمان بالله سبحانه وتعالى، وذلك لأنه ما لم يثبت أن للعالم صانعا قادرا على جميع المقدورات، عالما بجميع المعلومات، غنيا عن كل الحاجات، لا يمكن معرفة صدق/ الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، فكانت معرفة الله تعالى هي الأصل، فلذلك قدم الله تعالى هذه المرتبة في الذكر.
والمرتبة الثانية: أنه سبحانه وتعالى إنما يوحي إلى الأنبياء عليهم الصلاة والسلام بواسطة الملائكة، فقال: ينزل الملائكة بالروح من أمره على من يشاء من عباده
والمرتبة الثالثة: الكتب، وهو الوحي الذي يتلقفه الملك من الله تعالى ويوصله إلى البشر وذلك في ضرب المثال يجري مجرى استنارة سطح القمر من نور الشمس فذات الملك كالقمر وذات الوحي كاستنارة القمر فكما أن ذات القمر مقدمة في الرتبة على استنارته فكذلك ذات الملك متقدم على حصول ذلك الوحي المعبر عنه بهذه الكتب، فلهذا السبب كانت الكتب متأخرة في الرتبة عن الملائكة، فلا جرم أخر الله تعالى ذكر الكتب عن ذكر الملائكة.
والمرتبة الرابعة: الرسل، وهم الذين يقتبسون أنوار الوحي من الملائكة، فيكونون متأخرين في الدرجة عن الكتب فلهذا السبب جعل الله تعالى ذكر الرسل في المرتبة الرابعة، واعلم أن ترتيب هذه المراتب الأربعة على هذا الوجه أسرار غامضة، وحكما عظيمة لا يحسن إيداعها في الكتب والقدر الذي ذكرناه كاف في التشريف."
(سورۃ البقرۃ،آیات :285،ج:7،ص:107،ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
تفسير ابن كثير ميں ہے:
"{فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا وإن تولوا فإنما هم في شقاق فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم .
يقول تعالى: {فإن آمنوا} أي (2) : الكفار من أهل الكتاب وغيرهم {بمثل ما آمنتم به} أيها المؤمنون، من الإيمان بجميع كتب الله ورسله، ولم يفرقوا بين أحد منهم {فقد اهتدوا} أي: فقد أصابوا الحق، وأرشدوا إليه {وإن تولوا} أي: عن الحق إلى الباطل، بعد قيام الحجة عليهم {فإنما هم في شقاق فسيكفيكهم الله} أي: فسينصرك عليهم ويظفرك بهم {وهو السميع العليم}"
(سورة البقرة :آيات:137،ج:1،ص:450،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع،)
صحيح مسلم ميں هے:
"عن جنادة بن أبي أمية قال: دخلنا على عبادة بن الصامت وهو مريض. فقلنا: حدثنا، أصلحك الله، بحديث ينفع الله به، سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:دعانا رسول الله صلى الله عليه وسلم فبايعناه. فكان فيما أخذ علينا، أن بايعنا على السمع والطاعة، في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، وأثرة علينا. وأن لا ننازع الأمر أهله. قال (إلا أن تروا كفرا بواحاعندكم من الله فيه برهان)."
(كتاب الإمارة،باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية، وتحريمها في المعصية،ج:3،ص:470،ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"ما كان من ضروريات الدين و هو ما يعرف الخواص و العوام أنه من الدين كوجوب اعتقاد التوحيد و الرسالة و الصلوات الخمس و أخواتها يكفر منكره."
(کتاب الصلاۃ، باب: الوتر والنوافل، ٢ / ٥، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(الإيمان) وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة.
قوله هو تصديق إلخ) معنى التصديق قبول القلب، وإذعانه لما علم بالضرورة أنه من دين محمد صلى الله عليه وسلم بحيث تعلمه العامة من غير افتقار إلى نظر واستدلال كالوحدانية والنبوة والبعث والجزاء، ووجوب الصلاة والزكاة وحرمة الخمر ونحوها."
(کتاب الجہاد ،باب المرتد،ج:4،ص:221،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"والكفر لغة: الستر. وشرعا: تكذيبه صلى الله عليه وسلم في شيء مما جاء به من الدين ضرورة وألفاظه تعرف في الفتاوى."
(كتاب الجهاد ،باب المرتد،ج:4،ص223،ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها ما يتعلق بالأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - من لم يقر ببعض الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام -، أو لم يرض بسنة من سنن المرسلين فقد كفر."
(کتاب السیر،مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام،ج:2،ص:263،ط:رشیدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن