بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا رسول صلی علیہ وسلم کی کوئی نماز قضا ہوئی تھی؟


سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کون سی نماز تھی جو قضا ہوگئی تھی ؟

جواب

کتب حدیث میں  متعدد روایات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی کچھ نمازیں  قضاء  ہوئی ہیں، جیسے غزوہ خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کا قضاء  ہونا، غزوہ خندق کے موقع پر ظہر، عصر ، مغرب کا قضاء ہونا، پس محدثین  میں سے بعض کا رجحان اس طرف ہے کہ غزوہ خیبر تمام نمازیں ایک ہی دن قضاء نہیں ہوئی تھیں، بلکہ مختلف دنوں میں مختلف  نمازیں  قضاء  ہوئی تھیں، جبکہ محدثین کے دوسرے طبقہ کا رجحان اس طرف ہے کہ ایک ہی دن میں ظہر تا مغرب نمازیں قضاء ہوئی تھیں، جن کی قضاء رسول اللہ صلی اللہ  علیہ والہ وسلم  نے ایک ساتھ عشاء سے قبل فرمائی تھی، جبکہ بعض محدثین نے غزوہ خندق کے حوالے سے تمام روایات میں سے سندی قوت کی وجہ سے ان روایات کو ترجیح  دی ہے، جن میں عصر کے قضاء ہونا مذکور ہے، جیسا کہ صحیحین ( بخاری و مسلم ) کی روایات میں ہے۔

ذیل میں  روایات ملاحظہ  ہوں:

بخاری شریف میں  حضرت  جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ  خندق کے دن آئے  اور کفارِ قریش کو برا بھلا  کہنے لگے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، ہم نے بھی وضو کیا اور پھر غروبِ آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عصر پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی، تھیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

" ٥٩٦ - حدثنا معاذ بن فضالة، قال: حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، أن عمر بن الخطاب، جاء يوم الخندق، بعد ما غربت الشمس فجعل يسب كفار قريش، قال: يا رسول الله ما كدت أصلي العصر، حتى كادت الشمس تغرب، قال النبي صلى الله عليه وسلم: «والله ما صليتها» فقمنا إلى بطحان، فتوضأ للصلاة وتوضأنا لها، فصلى العصر بعد ما غربت الشمس، ثم صلى بعدها المغرب."

( كتاب مواقيت الصلاة، باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت،١ / ١٢٢، ط: دار طوق النجاة)

مسلم شریف  میں حضرت  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ خیبر سے لوٹتے ہوئے  ایک رات چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونگھنے لگے آخر شب میں اتر پڑے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ:  ” تم آج کی رات ہمارا پہرہ دو۔“ تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے رہے جتنی کہ ان کی تقدیر میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  صحابہ  رضی اللہ عنہم بھی سوگئے ۔ پھر جب صبح قریب ہوئی تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے  مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی اونٹنی پر ٹیک  لگایا اور ان کی آنکھ لگ گئی۔ پھر نہ  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جاگے اور نہ  ہی  حضرت بلال کی آنکھ کھلی، اور نہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کوئی  جاگا، یہاں تک کہ ان پر دھوپ آن پڑی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جاگے اور گھبرائے  اور فرمایا: ”اے بلال!“ تو  بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ میری جان کو بھی اسی نے پکڑ لیا  تھا جس نے آپ کی جان کو پکڑا تھا ( یعنی میری بھی آنکھ لگ گئی تھی، جیسے باقی سب کی بھی آنکھ لگ گئی تھی) ، اے اللہ کے رسول!  میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹوں کو ہانکو“ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تھوڑی دور تک  اونٹوں کو  ہانکا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ا ور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا  اور بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی  پھر جب نماز پڑھا چکے تو فرمایا: ”جو شخص نماز  بھول جائے تو یاد آتے ہی  پڑھ لے،  اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری یاد کے لئے نماز قائم کرو“ 

صحیح مسلم میں ہے:

" ٣٠٩ - (٦٨٠) حدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر، سار ليله حتى إذا أدركه الكرى عرس، وقال لبلال: «اكلأ لنا الليل»، فصلى بلال ما قدر له، ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته مواجه الفجر، فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا بلال، ولا أحد من أصحابه حتى ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أي بلال» فقال بلال: أخذ بنفسي الذي أخذ - بأبي أنت وأمي يا رسول الله - بنفسك، قال: «اقتادوا»، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأمر بلالا فأقام الصلاة، فصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة قال: «من نسي الصلاة فليصلها إذا ذكرها»، فإن الله قال: {أقم الصلاة لذكري} ،  قال يونس: وكان ابن شهاب: «يقرؤها للذكرى»"

( كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب قضاء الصلاة الفائتة، واستحباب تعجيل قضائها،١ / ٤٧١، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ جنگ خندق (احزاب) کے دن مشرکین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازوں سے روکے رکھا، چنانچہ آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عشاء پڑھی۔

سنن نسائی میں ہے:

" ٦٦٢ - أخبرنا هناد، عن هشيم، عن أبي الزبير، عن نافع بن جبير، عن أبي عبيدة قال: قال عبد الله: «إن المشركين شغلوا النبي صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات يوم الخندق، فأمر بلالا فأذن، ثم أقام فصلى الظهر، ثم أقام فصلى العصر، ثم أقام فصلى المغرب، ثم أقام فصلى العشاء»"

( كتاب الاذان، الاجتزاء لذلك كله بأذان واحد , والإقامة لكل واحدة منهما، ٢ / ١٨، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

و فیہ ایضا:

" ٦٦٣ - أخبرنا القاسم بن زكريا بن دينار قال: حدثنا حسين بن علي، عن زائدة قال: حدثنا سعيد بن أبي عروبة قال: حدثنا هشام، أن أبا الزبير المكي حدثهم، عن نافع بن جبير، أن أبا عبيدة بن عبد الله بن مسعود حدثهم، أن عبد الله بن مسعود قال: كنا في غزوة فحبسنا المشركون عن صلاة الظهر والعصر والمغرب والعشاء، فلما انصرف المشركون أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا فأقام لصلاة الظهر فصلينا، وأقام لصلاة العصر فصلينا، وأقام لصلاة المغرب فصلينا، وأقام لصلاة العشاء فصلينا، ثم طاف علينا فقال: «ما على الأرض عصابة يذكرون الله عز وجل غيركم»"

( كتاب الاذان، الاكتفاء بالإقامة لكل صلاة،٢ / ١٨، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

التوشيح شرح الجامع الصحيح للسيوطي میں ہے:

" وللنسائي عن أبي سعيد أن ذلك كان قبل أن ينزل الله في صلاة الخوف، {فرجالا أو ركبانا}، وفيه أنه فاتهم يومئذ الظهر والعصر، وفي الترمذي والنسائي عن ابن مسعود: "أربع صلوات حتى ذهب من الليل ما شاء الله".

قال ابن العربي: وما في "الصحيح" هو المعتمد، وهو الذي فات العصر خاصة، وجمع بعضهم وقعة الخندق كانت أياما، فكان ذلك في أوقات مختلفة من تلك الأيام، ورجحه اليعمري وابن حجر.

قلت: بهذا الجمع أيضا بين ما تقدم وبين حديث: "أنه ردت عليه الشمس يوم الخندق حتى صلى العصر، فلعله كان في يوم آخر غير الذي ذكرت قصته في "الصحيح".

( كتاب مواقيت الصلاة، باب من صلى بالناس جماعة بعد ذهاب الوقت،٢/ ٦٣١ - ٦٣٢، ط: مكتبة الرشد - الرياض)

تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي میں ہے:

" قوله (شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات) قال الحافظ في الفتح في قوله أربع صلوات تجوز لأن العشاء لم تكن فاتت انتهى

ويدل حديث جابر الآتي على أنهم شغلوه عن صلاة العصر وحدها قال اليعمري من الناس من رجح ما في الصحيحين وصرح بذلك بن العربي أن الصحيح أن الصلاة التي شغل عنها واحدة وهي العصر

قال الحافظ في الفتح ويؤيده حديث علي في مسلم شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر قال ومنهم من جمع بأن الخندق كانت وقعته أياما فكان ذلك في أوقات مختلفة في تلك الأيام قال وهذا أولى قال ويقربه أن روايتي أبي سعيد وبن مسعود ليس فيهما تعرض لقصة عمر بل فيهما أن قضاءه للصلاة بعد خروج وقت المغرب

وأما رواية حديث الباب ففيها أن ذلك عقب غروب الشمس انتهى كلام الحافظ."

(ابواب الصلاة، باب ما جاء في الرجل تفوته الصلوات بأيتهن يبدأ، ١ / ٤٥١ - ٤٥٢، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں