بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قربانی میں طاق اور جفت ضروری ہے؟


سوال

قربانی میں طاق اور جفت ُ ضروری ہیں؟

جواب

 سوال کا مقصد  اگر یہ جاننا ہے کہ ایک شخص پر کتنی قربانیاں واجب ہوتی ہیں، تو  مسئولہ صورت میں جس شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے، اس پر صرف ایک چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ایک حصہ کرنا لازم ہوتا ہے، البتہ اگر کوئی نفلی قربانی کی نیت سے مزید جانور یا حصے کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اس صورت میں طاق یا جفت عدد قربانی کرنے کی شرعاً کوئی قید نہیں۔

اگر مقصود سوال ایک بڑے جانور میں حصوں کی تعداد جاننا ہے، تو اس صورت میں جان لینا چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ نے بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات حصے کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ سات سے کم افراد اگر ایک بڑے جانور میں شریک ہونا چاہیں، تو اس کی بھی اجازت ہے، تاہم یہ ضروری ہے کہ کسی بھی حصے دار کی رقم جانور کی قیمت کے ساتویں حصے سے کم نہ ہو،  نیز بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ حصوں میں طاق عدد سات متعین ہے، البتہ سات سے کم میں تعداد طاق بھی جائز ہے، اور جفت بھی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ثَلَاثَةُ نَفَرٍ اشْتَرَكُوا فِي بَقَرَةٍ فَأَشْرَكَ أَحَدُهُمْ رَجُلًا فِي الرُّبْعِ جَازَ وَالثُّلُثُ بَيْنَهُمَا نِصْفَانِ؛ لِأَنَّهُ جَعَلَهُ مِثْلًا لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ وَلَمْ يَصِحَّ الْجَعْلُ فِي نَصِيبِ الشُّرَكَاءِ فَصَحَّ فِي نَصِيبِهِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ.(الْبَابُ الثَّامِنُ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِالشَّرِكَةِ فِي الضَّحَايَا، ۵ / ۳۰۵، ط: دار الفكر ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں