بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا شروع کرنے کے بعد چھوڑ دینے سے گناہ ملتا ہے؟


سوال

میں نے قر آن پاک کا ترجمہ شروع کیا ہے، اب اگر میں چھوڑ دوں  ترجمہ پڑھنا، تو ایسی صورت میں مجھے گناہ ملے گا یا نہیں؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ  کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر ترجمہ کے، دونوں صورتوں میں بڑا ثواب ہے، البتہ قرآنِ کریم کی ایک آیت سیکھنے پر حدیث  شریف میں یہ فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ایک آیت کا سیکھنا سو رکعت نفل نماز سے بہتر ہے؛ لہذا کوئی شخص تلاوت کے ساتھ ساتھ آیات کا معنی و مفہوم سمجھ کر پڑھتاہے تو وہ اس فضیلت کا مستحق بنتا ہے، تاہم اگر کوئی قرآن مجید کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو، تو اُسے چاہیے کسی مستند عالمِ دین کی خدمات حاصل کرکے ان کی نگرانی میں سمجھے، اپنے قوتِ مطالعہ پر اعتماد نہ کرے، تاکہ قرآنِ مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق سمجھنا ممکن ہو؛  کیوں کہ رطب و یابس میں فرق کرنا عام مسلمان کے لیے ممکن نہیں۔

لہٰذا آپ کا قرآن پاک کا ترجمہ شروع کرنا اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کا شوق قابلِ تحسین ہے، اور آپ کو چاہیے کہ کسی مستند عالمِ دین کی نگرانی میں اس سلسلے کو جاری رکھیں اگرچہ روزانہ تھوڑا تھوڑا پڑھیں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ پڑھیں، تاہم اگر  کسی وجہ سے آپ کے اس معمول میں ناغہ ہوجائے، تو آپ گناہ گار نہ ہوں گے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن بشار، قال: حدثنا ‌أبو بكر الحنفي، قال: حدثنا ‌الضحاك بن عثمان، عن ‌أيوب بن موسى قال: سمعت ‌محمد بن كعب القرظي يقول: سمعت ‌عبد الله بن مسعود يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قرأ حرفًا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول: آلم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف."

(أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن ما له من الأجر، ٥/ ٣٣، ط: دار الغرب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے گا تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے جو دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی قرآن کے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں) میں یہ نہیں کہتا کہ سارا "الم" ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔ (یعنی الم کہنے میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں)۔"

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا العباس بن عبد الله الواسطي، حدثنا عبد الله بن غالب العباداني، عن عبد الله بن زياد البحراني، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب عن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آيةً من كتاب الله، خير لك من أن تصلي مائة ركعة، ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل به أو لم يعمل، خير من أن تصلي ألف ركعة»."

(أبواب السنة، باب من فضائل، باب فضل من تعلم القرآن وعلمه، ١/ ١٤٨، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"  حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تو صبح کو جا کر کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھے یہ تیرے لیے سو رکعت نماز سے بہتر ہے اور تو صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھے خواہ اس پر (اسی وقت) عمل کرے یا نہ کرے یہ تیرے لیے ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن عرعرة  قال: حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبي سلمة ، عن عائشة أنها قالت: سئل  النبي - صلى الله عليه وسلم -: أي الأعمال أحب إلى الله؟ قال: أدومه  وإن قل، وقال: اكلفوا  من الأعمال ما تطيقون."

(كتاب الرقاق، باب القصد  والمداومة على العمل، ١٢/ ٦٣٢، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)

ترجمہ:"  اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ ﷺ فرمایا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے، خواہ وہ تھوڑا ہی ہو،  اور فرمایا نیک کام کرنے میں اتنی ہی تکلیف اٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ "

اس حدیث پر حاشیہ میں مولانا احمد علی سہارنپوری صاحب ؒ فرماتے ہیں:

"قوله: (‌أدومه) فيه سؤال وهو: أن المسؤول عنه أحب الأعمال وظاهره السؤال عن ذات العمل والجواب ورد بأدوم، وهو صفة العمل فلم يتطابقا؛ ويمكن أن يقال: إن هذا السؤال وقع بعد قوله في الحديث الماضي في الصلاة وفي الحج وفي بر الوالدين حيث أجاب بالصلاة ثم بالبر إلخ، ثم ختم ذلك بأن المداومة على العمل من أعمال البر، ولو كان مفضولا أحب إلى الله من عمل يكون أعظم أجرا، لكن ليس فيه مداومة."

(كتاب الرقاق، باب القصد  والمداومة على العمل، ١٢/ ٦٣٢، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"قوله: (أدومها) بصيغة أفعل التفضيل، قيل: أدومها كيف يكون قليلا ومعنى الدوام شمول الأزمنة؟ مع أنه غير مقدور أيضا. أجيب: بأن المراد بالدوام المواظبة العرفية وهي الإتيان بها في كل شهر أو كل يوم بقدر ما يطلق عليه عرفا اسم المداومة."

(كتاب الرقاق، باب القصد  والمداومة على العمل، ٢٣/ ٦٤، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں