بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرآن مجید کی موجودہ ترتیب خود نبی پاک ﷺ کی دی ہوئی ہے؟


سوال

قرآن مجید کی ترتیب خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی  ہے، اس پر باحوالہ  دلائل سے جواب  دیں۔

جواب

 قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے،  یعنی اسے خود نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ہدایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم سے ترتیب دیا ہے، اور اسی پر امتِ مسلمہ کا اجماع ہے۔

اس بات پر قرآن وحدیث کی کئی نصوص دال ہیں، اور علمائے امت کی تصریحات کثرت سے موجود ہیں، البتہ ان میں سے چند ایک کو بطور دلائل کے ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے:

(1)یہ بات متفقہ طور پر مسلم ہے کہ قرآن مجید کی کتابت کی ابتداء دورِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے ہی ہوگئی تھی، اور نبی کریم ﷺ ہر نازل ہونے والی آیت کو کاتبین کے ذریعہ فوراً  لکھوا لیا کرتے تھے۔

جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌عبيد الله بن موسى، عن ‌إسرائيل، عن ‌أبي إسحاق، عن ‌البراء قال: لما ‌نزلت: {‌لا ‌يستوي القاعدون من المؤمنين * والمجاهدون في سبيل الله} قال النبي صلى الله عليه وسلم: ادع لي زيدا، وليجئ باللوح والدواة والكتف، أو: الكتف والدواة، ثم قال: اكتب: {لا يستوي القاعدون} ...الحديث"

(كتاب فضائل القرآن، ‌‌باب كاتب النبي صلى الله عليه وسلم، ٦/ ١٨٤، ط: دارطوق النجاة)

ترجمہ:" حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت{‌لا ‌يستوي القاعدون من المؤمنين * والمجاهدون في سبيل الله} نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زید کو میرے پاس بلاؤ، اور وہ اپنے ساتھ تختی، دوات اور شانے کی ہڈی، یا دوات اور شانے کی ہڈی لے کر آئے، پھر (جب وہ مذکورہ چیزیں لے کر حاضر ہوگئے تو) فرمایا: اس  آیت {لا يستوي القاعدون}کو لکھو۔۔۔ الخ"

نیز صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا ‌هداب بن خالد الأزدي، حدثنا ‌همام، عن ‌زيد بن أسلم، عن ‌عطاء بن يسار، عن ‌أبي سعيد الخدري : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تكتبوا ‌عني، ومن كتب عني غير القرآن فليمحه ...الحديث."

(كتاب الزهد والرقاق، ‌‌باب التثبت في الحديث وحكم كتابة العلم، ٨/ ٢٢٩، ط: دارالمنهاج)

ترجمہ: "حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (قرآن کے سوا) مجھ سے کچھ نہ لکھو، اور جس نے مجھ سے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو، تو اُس کو مٹا دے۔"

اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر ؒ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"لأنه لو لم تثبت أمانته وكفايته وعقله لما استكتبه النبي صلى الله عليه وسلم الوحي، وإنما وصفه بالعقل وعدم الإتهام دون ما عداهما إشارة إلى إستمرار ذلك له اهـ"

(١٣/ ١٨٤، ط: دار المعرفة)

ترجمہ: "اس لیے کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کی امانت، کفایت اور عقل مندی ثابت شدہ نہ ہوتی، تو نبی کریم ﷺ  آپ رضی اللہ عنہ سے وحی لکھوانے کا کام نہ لیتے، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے صرف دو  اوصاف عاقل ہونے اور غیر متہم ہونے کو بیان کیا، اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ یہ دونوں اوصاف اب تک برابر آپ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہیں۔"

نیز نبی کریم ﷺ کے دور میں آپ ﷺ کے مخالفین کو بھی اس بات کا اقرار تھا کہ آپ ﷺ قرآن مجید لکھواتے ہیں، جیسا کہ سورۂ فرقان میں ہے:

"وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً"(الفرقان: ٥)

ترجمہ: "اور یہ (کافر) لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) بے سند باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آتی ہیں جن کو اس شخص (یعنی پیغمبر) نے (عمدہ عبارت میں سوچ سوچ کراپنے صحابہ کے ہاتھ سے) لکھوا لیا ہے (تاکہ منضبط رہے) پھر وہی (مضامین) اس (شخص) کو صبح وشام  پڑھ پڑھ کرسنائے جاتے ہیں۔"

(بیان القرآن،٨/٤١، ط: میر محمد کتب خانہ)

(2)نبی کریم ﷺ ہر نازل ہونے والی وحی کو نہ صرف لکھوالیا کرتے تھے، بلکہ ہر سورت اور اس کی ہر ہر آیت کی ترتیب بھی کاتبینِ وحی کو خود  بتایا کرتے تھے۔ 

جیسا کہ مستدرک حاکم میں ہے:

"حدثنا أبو جعفر محمد بن صالح بن هانئ، ثنا الحسن بن الفضل، ثنا هوذة بن خليفة، ثنا عوف بن أبي جميلة، ثنا يزيد الفارسي، قال: قال لنا ابن عباس رضي الله عنهما: قلت لعثمان بن عفان رضي الله عنه: ... فقال عثمان رضي الله عنه: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأتي عليه الزمان تنزل عليه السور ذوات عدد، فكان إذا نزل عليه الشيء ‌يدعو ‌بعض ‌من ‌كان ‌يكتبه، فيقول: «ضعوا هذه في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا» وتنزل عليه الآية فيقول: «ضعوا هذه في السورة التي يذكر فيها كذا وكذا» ...الحديث."

(كتاب التفسير، ٢/ ٢٤١، ط: دار الكتب العلمية)

وكذالك رواه أحمد في مسنده (مسند عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه، ١/ ٣٧٤، ط: دارالحديث)، والترمذي في سننه(أبواب تفسير القرآن، ٥/ ١٦٦، ط: دار الغرب الإسلامي)، وأبوداؤد في سننه(كتاب الصلاة، باب الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم، ٢/ ٩٠، ط: دارالرسالة العالمية)، والنسائي في السنن الكبرى(كتاب فضائل القرآن، ٧/ ٢٥٣، ط: مؤسسة الرسالة)، والبيهقي في معرفة السنن والآثار(كتاب الصلاة، ‌‌بسم الله الرحمن الرحيم، آية من الفاتحة، ٢/ ٣٦٤، ط: دارالوفا)، ونقل المتقي الهندي في كنز العمال(كتاب الأذكار، باب في لواحق التفسير، ٢/ ٥٧٩، ط: مؤسسة الرسالة)، والخطيب تبريزي في المشكاة المصابيح(كتاب فضائل القرآن، ‌‌باب اختلاف القراءات وجمع القرآن، ١/ ٦٨٢، ط: المكتب الإسلامي).

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: ۔۔۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ پر ایک ایسا زمانہ گزرتا تھا کہ اس حالت میں آپ ﷺ پر متعدد آیات والی سورتیں نازل ہوتی تھیں، پس جب آپ ﷺ پر  قرآن میں سے کچھ نازل ہوتا، تو آپ ﷺ وحی لکھنے والوں میں سے کسی کو بلاتے تھے اور فرماتےکہ  یہ آیتیں فلاں سورت میں رکھ دو جس میں ایسا اور ایسا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ الحدیث"

اس حدیث کی شرح میں ملاعلی قاریؒ مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں:

"وهذا زيادة جواب تبرع به - رضي الله عنه - للدلالة ‌على ‌أن ‌ترتيب الآيات توقيفي، وعليه الإجماع، والنصوص المترادفة."

(كتاب فضائل القرآن، ٤/ ١٥٢٠، ط: دارالفكر)

ترجمہ: "اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے  اپنے جواب میں اس اضافی واقعے کی زیادتی کی؛ اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ قرآن کی آیات کی ترتیب توقیفی ہے، اور اسی پر صحابہ کرام کا اجماع ہے، اور پے درپے نصوص بھی اسی پر دال ہیں۔"

(3)نیز آیات اور سورتوں کی ترتیب، نبی کریمﷺ بھی اپنے اجتہاد سے نہیں، بلکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام  کے بتانے سے ارشاد فرماتے تھے۔

جیسا کہ مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عثمان بن أبي العاص قال: كنت عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم - جالسا إذ شخص ببصره، ثم صوبه حتى كاد أن يلزق بالأرض، قال: وشخص ببصره قال: أتاني جبريل ‌فأمرني أن أضع هذه الآية بهذا الموضع من هذه السورة {إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون}. رواه أحمد وإسناده حسن."

(كتاب التفسير، سورة النحل، ٧/ ٤٨، ط: مكتبة القدسي)

ترجمہ: "حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے نیچے ہوئے کہ زمین سے لگنے کے قریب ہوگئے، تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھیں اوپر کیں اور فرمایا کہ ابھی ابھی میرے پاس حضرت جبرائیل ؑ آئے تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں یہ آیت فلاں سورت کی فلاں جگہ پر رکھ  دوں:{إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون}."

اسی طرح معجمِ طبرانی الاوسط میں ہے:

"حدثنا محمد بن راشد، ثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري، ثنا حسين بن محمد المروذي، عن سليمان بن قرم، عن عبد الجبار بن العباس، عن عمار الدهني، عن عقرب بنت أفعى، عن أم سلمة، قالت:" كان جبريل عليه السلام يملي على النبي صلى الله عليه وسلم".لم يرو هذا الحديث عن عمار الدهني إلا عبد الجبار، ولا عن عبد الجبار إلا سليمان بن قرم، تفرد به: حسين بن محمد."

(باب الميم، من اسمه: محمد، ٧/ ١٩٧، ط: دارالحرمين)

ترجمہ:"  حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کو لکھواتے (یعنی ہر آیت کے لکھنے کی جگہ اور ترتیب بتاتے) تھے۔"

(4)نیز آپ ﷺ صرف وحی کے لکھوانے پر ہی اکتفاء نہ فرماتے، بلکہ لکھوانے کے بعد پڑھواکر سنتے، اور اگر کہیں کوئی حرف یا نقطہ بھی چھوٹ جاتا تو اس کی اصلاح کرواتے، اس کے بعد اسے عوام میں شائع کیا جاتا۔

جیساکہ مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن زيد بن ثابت قال: كنت أكتب الوحي لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - وكان إذا نزل عليه أخذته برحاء شديدة وعرق عرقا شديدا مثل الجمان، ثم سري عنه، فكنت أدخل بقطعة العسب أو كسره، فأكتب وهو يملي علي، فما أفرغ حتى تكاد رجلي تنكسر من ثقل القرآن، حتى أقول: لا أمشي على رجلي أبدا، فإذا فرغت قال: "اقرأه"، فأقرأه، ‌فإن ‌كان ‌فيه ‌سقط أقامه، ثم أخرج به إلى الناس. رواه الطبراني بإسنادين ورجال أحدهما ثقات."

(كتاب علامات النبوة، باب ما جاء في بعثته صلى الله عليه وسلم وعمومها ونزول الوحي، ٨/ ٢٥٧، ط: مكتبة القدسي)

ترجمہ:" زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وحی کو مجھ سے لکھاتے تھے، نزولِ وحی کے وقت آپ ﷺ کو نہایت گرانی ہوتی، موتی کی طرح پسینہ چہرے سے نمودار ہوتا اور بہت پسینہ آتا، جب وحی ختم ہوجاتی تو میں شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوتا، آپ ﷺ بتلاتے جاتے اور میں لکھتا جاتا، مجھے بھی قرآن کے ثقل سے اس قدر گرانی محسوس ہوتی جس سے معلوم ہوتا کہ میرا پیر ٹوٹا جارہا ہے اور میں اپنے پیروں سے اب کبھی چل نہ سکوں گا، پھر جب میں  لکھنے سے فارغ ہوجاتا تو  آپ ﷺ فرماتے کہ اسے سناؤ، میں اُسے پڑھتا، اگر اُس میں کوئی غلطی ہوتی (یا کوئی حرف یا نقطہ لکھنے سے چھوٹ جاتا) تو آپ ﷺ اس کی اصلاح فرماتے، (اور جب کتابت وتصحیح کے سارے مراتب مکمل ہوجاتے) پھر میں اُسے لوگوں میں لاتا (یعنی شائع کرتا)۔"

(5)خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کی تصریح فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ سے قرآن مجید لکھتے اور اس کو آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ترتیب دیا کرتے  تھے۔

جیساکہ مستدرکِ حاکم میں ہے:

"حدثناه أبو عبد الله محمد بن يعقوب الحافظ، ثنا إبراهيم بن عبد الله السعدي، ثنا وهب بن جرير، ثنا أبي، سمعت يحيى بن أيوب، يحدث عن يزيد بن أبي حبيب، عن عبد الرحمن بن شماسة، عن زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌نؤلف ‌القرآن من الرقاع."

(كتاب التفسير، ٢/ ٢٤٩، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ: "ہم لوگ (یعنی صحابہ کرام) رسول اللہ ﷺ کے پاس رقاع (چمڑے کے ٹکڑوں)  پر سے قرآن کریم کو جمع کرتے تھے۔"

اس پر امام بیہقی ؒ اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں فرماتے ہیں:

"قلت: وهذا يشبه أن يكون أراد به تأليف ما نزل من الكتاب: الآيات المتفرقة في سورها، وجمعها فيها بإشارة النبي صلى الله عليه وسلم ثم كانت مثبتة في الصدور مكتوبة في الرقاع، واللخاف، والعشب، فجمعها منها في صحف، بإشارة أبي بكر، وعمر، ثم نسخ ما جمعه في الصحف، في مصاحف بإشارة عثمان ابن عفان (رضي الله عنه) على ما رسم المصطفى صلى الله عليه وسلم ... وفي كل ذلك دلالة على أن آيات القرآن، كانت مؤلفة في سورها، إلا أنها كانت في صدور الرجال مثبتة، وعلى الرقاع وغيرها مكتوبة. فرأى أبو بكر، وعمر جمعها في صحف. ثم رأى عثمان نسخها في مصاحف."

(‌‌جماع أبواب كيفية نزول الوحي ...الخ، باب ما جاء في تأليف القرآن ...الخ، ٧/ ١٤٧، ط: دارالكتب العلمية)

ترجمہ: "مصنف فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اس جمع کرنے  سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ متفرق نازل ہونے والی آیات کو ترتیب وار اُن کی سورتوں میں جمع کرتے تھے، اور اس کے جمع کرنے کا حکم خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، بعد میں قرآن کریم کو سینوں میں محفوظ کرلیا گیا، پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حکم پر جو چمڑے پر لکھا ہوا تھایا پتھروں پر تھا یا خشک پتوں پر تھا، اس سب کو صفحات پر اتارلیا گیا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے تمام صحیفوں کو جمع کرکے صرف ایک مصحف پر (ایک رسم الخط جو حضور ﷺکا رسم تھا پر) جمع کیا گیا۔"

نیز صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌حفص بن عمر، حدثنا ‌همام، حدثنا ‌قتادة قال: «سألت أنس بن مالك رضي الله عنه: ‌من ‌جمع ‌القرآن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: أربعة كلهم من الأنصار: أبي بن كعب، ومعاذ بن جبل، وزيد بن ثابت، وأبو زيد».تابعه الفضل، عن حسين بن واقد، عن ثمامة، عن أنس."

(كتاب فضائل القرآن،‌‌باب القراء من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ٦/ ١٨٧، ط: دارطوق النجاة)

ترجمہ: حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں کس نے قرآن کو جمع کیا تھا؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چار لوگوں نے، جو کہ سب کے سب انصار میں سے تھے، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، اور ابو زید(رضی اللہ عنہم)۔"

نیز امام ابن قتیبہؒ اپنی کتاب "المعارف" میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تذکرے میں آپ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں:

"وكان آخر عرض رسول الله- صلّى الله عليه وسلّم- القرآن على مصحفه، ‌وهو ‌أقرب ‌المصاحف من مصحفنا. وقد كتب زيد لعمر بن الخطاب- رضى الله عنهما."

(زيد بن ثابت رضى الله عنه، ١/ ٢٦٠، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ:"اور  حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے اخیر میں اپنا لکھا ہوا قرآن کا نسخہ  آپ ﷺ کو پیش کیا (یعنی سنایا)، اور یہ نسخہ  ہمارے قرآن کے نسخوں کے قریب ترین نسخہ ہے۔ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ایک قرآن کا نسخہ لکھا تھا۔"

اور ازالۃ الخفاء میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں:

"وروي من طرق متعددة أن المصريين لما دخلوا على عثمان كان المصحف بين يديه فضربوه بالسيف على يديه فجرى الدم على "فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم" فقال عثمان والله أنها لأُولى يدٍ خطت المفصل."

ترجمہ: "اور متعدد طریقوں سے مروی ہے کہ مصر والے باغی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر گھر میں داخل ہوکر حملہ آور ہوئے، تو قرآن مجید کھلا ہوا اُن کے سامنے تھا۔ انھوں نے آپ کے ہاتھوں پر تلوار ماری تو اس آیت پر خون جاری ہوا "فسيكفيكهم الله الخ" (تو تمہاری طرف سے عنقریب ہی نمٹ لیں گے اللہ تعالیٰ اور وہ سنتے ہیں جانتے ہیں)، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم یہ سب سے پہلا ہاتھ ہے جس نے قرآن کی کتابت کی تھی۔"

(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء مترجم، فصل ششم، ٢/ ١٤، ط: قدیمی کتب خانہ)

(6)اس بات پر امت کااجماع ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے، اسے نبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق ہی لکھاگیا ہے، اس کی ترتیب میں کسی کے اجتہاد کو دخل نہیں ہے۔

جیسا کہ اس بات کی تصریح خود جامعِ قرآن حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قول میں ملتی ہے:

"حدثني ‌أمية بن بسطام حدثنا ‌يزيد بن زريع، عن ‌حبيب، عن ‌ابن أبي مليكة قال ‌ابن الزبير: قلت لعثمان بن عفان: {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا} قال: قد نسختها الآية الأخرى، فلم تكتبها؟ أو: تدعها؟ قال: يا ابن أخي، لا أغير شيئا منه من مكانه."

(صحيح البخاري، كتاب تفسير القرآن،‌‌ باب  نساؤكم حرث لكم ...الخ، ٦/ ٢٩، ط: دارطوق النجاة)

ترجمہ:"حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس آیت {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا}  کو تو دوسری آیت نے منسوخ کردیا تھا، پھر آپ نے اس (منسوخ آیت) کو (مصحف میں) کیوں لکھا؟ یا کیوں چھوڑدیا؟ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے! میں قرآن میں سے کچھ بھی  اپنی جگہ سے نہیں ہٹاسکتا۔"

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں: 

"وفي جواب عثمان هذا دليل على أن ترتيب الآي توقيفي وكأن عبد الله بن الزبير ظن أن الذي ينسخ حكمه لا يكتب فأجابه عثمان بأن ذلك ليس بلازم والمتبع فيه التوقف."

(فتح الباري، باب والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا، ٨/ ١٩٤، ط: دار المعرفة)

ترجمہ: "اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس جواب میں دلیل ہے اس بات پر کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی (یعنی نبی کریم ﷺ کی ہدایات سے ثابت شدہ) ہے، اور شاید حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا گمان یہ تھا کہ جو آیت منسوخ الحکم ہے اُسے قرآن میں نہیں لکھا جائے گا، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا  کہ یہ لازم نہیں، بلکہ اس میں پیروی توقف (وحی کی ہدایت) کی کی جاتی ہے۔"

اسی طرح جمعِ قرآن کی ایک اور حدیث کی شرح میں ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:

"قال البغوي في هذا الحديث بيان واضح أن الصحابة - رضي الله عنهم - جمعوا بين الدفتين القرآن الذي أنزل الله تعالى على رسوله - صلى الله عليه وسلم - من غير أن زادوا أو نقصوا منه شيئا باتفاق من جميعهم خوف ذهاب بعضه بذهاب حفظته، وكتبوه كما جمعوه من رسول الله - صلى الله عليه وسلم- وكان - صلى الله عليه وسلم - يلقن أصحابه ويعلمهم ما ينزل عليه من القرآن على الترتيب الذي هو الآن في مصاحفنا بتوقيف من جبريل - عليه السلام - إياه على ذلك وإعلامه عند نزول كل آية أن هذه الآية تكتب عقب آية كذا في سورة كذا، روي معنى هذا عن عثمان - رضي الله عنه -."

(مرقاة المفاتيح، كتاب فضائل القرآن، ٤/ ١٥٢٠، ط: دارالفكر)

ترجمہ: "امام بغویؒ فرماتے ہیں  اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُسی قرآن کو دوگتوں کے درمیان جمع کیا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کیا تھا، اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس میں کوئی زیادتی یا کمی نہیں کی، اور اُن کے قرآن کو جمع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآن کے حافظوں کی موت سے قرآن کے کسی حصے کے ضائع ہوجانے کے خوف میں مبتلاء ہوگئے تھے، اس لیے اُنہوں نے جس طرح قرآن کو رسول اللہ ﷺ سے سناتھا، اُسی انداز پر بلاکسی تقدیم وتاخیر کے اُس کو لکھ لیا، یہاں تک کہ اُس کی ترتیب میں بھی آپ ﷺ سے اخذ کی ہوئی ترتیب کے علاوہ اپنی رائے کو ہرگز دخل نہیں دیا؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو قرآن کے نازل شدہ حصوں کی تلقین اُسی ترتیب پر فرمائی تھی جو آج ہمارے مصحفوں میں پائی جاتی ہے، اور آپ ﷺ کو اس ترتیب پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے واقف بنایا تھا جو ہر ایک آیت کے نزول کے وقت آپ ﷺ کو بتا دیا کرتے تھے کہ یہ آیت فلاں سورت کی فلاں آیت کے بعد لکھی جائے گی۔ یہی مفہوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔"

نیز الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"الإجماع والنصوص المترادفة على أن ترتيب الآيات توقيفي لا شبهة في ذلك وأما الإجماع فنقله غير واحد منهم الزركشي في البرهان وأبو جعفر بن الزبير في مناسباته وعبارته: ترتيب الآيات في سورها واقع بتوقيفه صلى الله عليه وسلم وأمره من غير خلاف في هذا بين المسلمين. انتهى ... وقال القاضي أبو بكر في الانتصار: ترتيب الآيات أمر واجب وحكم لازم فقد كان جبريل يقول: "ضعوا آية كذا في موضع كذا " وقال أيضا: الذي نذهب إليه أن جميع القرآن الذي أنزله الله وأمر بإثبات رسمه ولم ينسخه ولا رفع تلاوته بعد نزوله هو هذا الذي بين الدفتين الذي حواه مصحف عثمان وأنه لم ينقص منه شيء ولا زيد فيه وأن ترتيبه ونظمه ثابت على ما نظمه الله تعالى ورتبه عليه رسوله من آي السور لم يقدم من ذلك مؤخر ولا أخر منه مقدم وإن الأمة ضبطت عن النبي صلى الله عليه وسلم ترتيب آي كل سورة ومواضعها وعرفت مواقعها كما ضبطت عنه نفس القراءات وذات التلاوة."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ١/ ٢١٢، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ: "اجماع اور پے درپے نصوص اس بات پر دال ہیں کہ قرآنی آیات کی ترتیب توقیفی (یعنی رسول اللہ ﷺ کی ہدایتوں سے ثابت شدہ) ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، ہرچہ اجماع  تو اُس کو بہت سے علماء نے نقل کیا ہے، من جملہ اُن میں سے  امام زرکشیؒ نے اپنی کتاب البرہان میں اور ابوجعفر بن الزبیرؒ نے اپنے مناسبات میں اس کو تحریر کیا ہے اور اُس کی عبارت یہ ہے: آیتوں کی ترتیب اپنی اپنی سورتوں میں، رسول اللہ ﷺ کی توقیف (ہدایت) اور آپ ﷺ کے حکم سے واقع ہوئی ہے، اور اس بارے میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں١٢۔۔۔   اور قاضی ابوبکر کتاب الانتصار میں لکھتے ہیں: آیتوں کی ترتیب ایک واجبی اورلازمی حکم ہے؛ کیوں کہ جبرئیل ؑ ہی اس بات کو کہہ دیا کرتے تھے کہ فلاں آیت فلاں جگہ پر رکھو۔ اور قاضی ابوبکر مزید فرماتے ہیں کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ تمام قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا، جس کے لکھے جانے کا حکم دیا، جسے منسوخ نہیں کیا، اور نہ ہی جس کے نزول کے بعد اُس کی تلاوت کو رفع کیا، وہ یہی قرآن ہے جو دو گتوں کے درمیان پایا جاتا ہے، اور جس کو مصحفِ عثمان شامل ہے، اس قرآن میں نہ تو کوئی کمی کی گئی ہے اور نہ کسی طرح کی زیادتی، اس کی ترتیب اور نظم اُسی انداز پر ثابت ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس کا نظم فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے سورتوں کی آیتوں کو یکے بعد دیگرے رکھنے سے ترتیب دیا، نہ اُس میں سے کسی پچھلی آیت کو اگلی بنایا گیا، اور نہ ہی اگلی کو پچھلی کیا گیا، پھر امت نے ہر ایک سورت کی آیتوں کی ترتیب اور اُن کی جگہوں  کو نبی کریم ﷺ سے ضبط (یاد) کرلیا، اور اُن کے مواقع کو اُسی طریقہ پر جان لیاجس طرح آپ ﷺ کی نفسِ قراءات اور ذاتِ تلاوت سے ضبط کیا گیا تھا۔"

نیز قرآنی آیات کی ترتیب کی طرح قرآن کی سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے، اس میں بھی کسی کے قیاس یااجتہاد کو دخل نہیں ہے، چناں چہ ملاعلی قاریؒ مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں:

"والحاصل أن هذا المقدار على هذا المنوال هو كلام الله المتعال بالوجه المتواتر الذي أجمع عليه أهل المقال، فمن زاد أو نقص منه شيئا كفر في الحال، ثم اتفقوا ‌على ‌أن ‌ترتيب الآي توقيفي؛ لأنه كان آخر الآيات نزولا {واتقوا يوما ترجعون فيه إلى الله}، فأمره جبريل أن يضعها بين آيتي الربا والمداينة ولذا حرم عكس ترتيبها، بخلاف ترتيب السور ... مع أن الأصح أن ترتيب السور توقيفي أيضا وإن كانت مصاحفهم مختلفة في ذلك قبل العرضة الأخيرة التي عليها مدار جمع عثمان ... ومما يدل على أنه توقيفي كون الحواميم رتبت ولاء، وكذلك الطواسين، ولم يرتب المسبحات ولاء بل فصل بين سورها، وكذا اختلاط المكيات بالمدنيات والله أعلم."

(كتاب فضائل القرآن، ٤/ ١٥٢٢، ط: دارالفكر)

ترجمہ: "اور حاصل یہ ہے کہ یہ مقدار اس طرز وطریقہ پر، یہی اللہ بلند وبرتر کا کلام ہے، جو ایسے متواتر طرق سے ثابت ہے جس پر محدثین کا اجماع ہے، اب جو اس میں کمی یا زیادتی کرے گا وہ کافر ہوجائے گا، پھر اس بات میں بھی علمائے امت متفق ہیں کہ قرآنی آیات کی ترتیب توقیفی (یعنی رسول اللہ ﷺ کی ہدایتوں سے ثابت شدہ) ہے؛ کیوں کہ نزول کے اعتبار سے آخری آیت{واتقوا يوما ترجعون فيه إلى الله} ہے، مگر حضرت جبرئیل ؑ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ اس آیت کو آیتِ ربا اور آیتِ مداینہ کے درمیان رکھیں، اسی لیے قرآن کی موجودہ ترتیب کو الٹ کرنا حرام ہے، برخلاف قرآن کی سورتوں کے ۔۔۔ لیکن صحیح تر بات یہ ہے کہ سورتوں کی موجودہ ترتیب بھی توقیفی (نبی کریم ﷺ کی ہدایت سے ثابت شدہ) ہے، اگرچہ عرضۂ اخیرہ، جس پر مصحفِ عثمان رضی اللہ عنہ کا مدار ہے، سے پہلے صحابہ کرام کے مصاحف سورتوں کی ترتیب میں مختلف تھے ۔۔۔ اور جو چیز سورتوں کی اس ترتیب کے توقیفی ہونے پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ "حوامیم" اور اسی طرح "طواسین" تو تسلسل کے ساتھ مرتب ہیں، مگر مسبحات کو تسلسل کے ساتھ مرتب نہیں کیا گیا، بلکہ ان سورتوں کے درمیان فصل ہے، اور اسی طرح مکی سورتوں کا مدنی سورتوں کے ساتھ اختلاط ہے۔ واللہ اعلم"

اسی طرح الاتقان فی  علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن الحصار: ‌ترتيب ‌السور ‌ووضع الآيات مواضعها إنما كان بالوحي. وقال ابن حجر: ترتيب بعض السور على بعضها أو معظمها لا يمتنع أن يكون توقيفيا. قال: ومما يدل على أن ترتيبها توقيفي ما أخرجه أحمد وأبو داود عن أوس بن أبي أوس حذيفة الثقفي قال: كنت في الوفد الذين أسلموا من ثقيف … الحديث، وفيه فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "طرأ علي حزبي من القرآن فأردت ألا أخرج حتى أقضيه"، فسألنا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: كيف تحزبون القرآن؟ قالوا نحزبه ثلاث سور وخمس سور وسبع سور وتسع سور وإحدى عشرة وثلاث عشرة وحزب المفصل من "ق" حتى نختم. قال: فهذا يدل على أن ترتيب السور على ما هو في المصحف الآن كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ١/ ٢١٩، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ: "اور ابن الحصار کہتے ہیں کہ سورتوں کی ترتیب اور آیتوں کا اُن کی جگہوں پر رکھا جانا صرف وحی کے ذریعہ سے ہی انجام پایا تھا۔ اور حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات کچھ غیر ممکن نہیں کہ بعض یا بیشتر سورتوں کی باہمی ترتیب توقیفی ہو؛ کیوں کہ سورتوں کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر جن اُمور سے استدلال کیا جاتا ہےمن جملہ اُن کے ایک حدیث بھی ہے جس کو امام احمد ؒاور امام ابوداؤدؒ نے بواسطہ اوس بن اوس کے حضرت حذیفہ الثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (وہ فرماتے ہیں کہ) میں اس وفد کے لوگوں میں شامل تھا جو قبیلۂ ثقیف میں سے قبولِ اسلام کا شرف حاصل کرچکے تھے ۔۔۔الی آخر الحدیث، اس حدیث میں آیا ہے کہ "پھر رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ مجھ پر قرآن کا ایک حزب (منزل) طاری ہوگیا تھا (یعنی قرآن کی ایک منزل بطورِ ورد پڑھنی شروع کردی تھی) چناں چہ میں نے ارادہ کیا کہ جب تک اُسے تمام نہ کرلوں اُس وقت تک باہر نہ نکلوں، لہٰذا ہم نے اصحابِ رسول ﷺ سے دریافت کیاتم لوگ قرآن کی منزلیں کس طرح پر کرتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہم قرآن کی منزلیں تین، پانچ، سات، نو، گیارہ اور تیرہ سورتوں کی کیا کرتے ہیں، اور آخری منزل مفصل سورۃ ق سے کرتے ہیں، یہاں تک کہ قرآن کو ختم کردیتے ہیں" (حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں) اس لیے یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ آج جس انداز پر مصحف میں سورتوں کی ترتیب پائی جاتی ہے، یہی ترتیب رسول اللہ ﷺ کے عہدِ مبارک میں بھی تھی۔"

نیز فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں ہے:

"بقي أمر ترتيب السور، فالمحققون على أنه من أمر الرسول صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم، وقيل هذا الترتيب باجتهاد من الصحابة، واستدل عليه ابن فارس باختلاف المصاحف في ترتيب السور، فمصحف أمير المؤمنين علي كان على ترتيب النزول، ومصحف ابن مسعود على غير هذا، والذي الآن، والحق هو الأول، وهذه الروايات مزخرفة موهومة، ولم توجد في الكتب المعتبرة ولا يعبأ بها في مقابلة التوارث الذي جرى من لدن رسول الله صلى الله عليه وآله وأصحابه وسلم إلى الآن، وفي الاتقان ناقلاً عن الزركشي الخلاف لفظي، فمن قال إنه ليس توقيفياً فمراده لم يقع توقيفاً قولياً مصرحاً، بل علموا برمزه صلوات الله وسلامه عليه وآله وأصحابه والقرائن الأخرى الدالة، لكن هذه الدلالة قطعية من غير ريبة."

(الأصل الأول: الكتاب، ٢/ ١٤، ط: دارالكتب العلمية)

ترجمہ: باقی رہا سورتوں کی ترتیب کا معاملہ تو محققین علماء کے نزدیک سورتوں کی ترتیب آں حضرت ﷺ کے حکم کے موافق ہے، اور یہ قول کہ صحابہ نے اپنی رائے سے یہ ترتیب دی ہے، اور اس پر ابن فارس کا یہ دلیل پیش کرنا کہ صحابہ کے مصاحف سورتوں کی ترتیب میں مختلف تھے، چناں چہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مصحف نزول کی ترتیب پر اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف اس کے علاوہ ترتیب پر تھا جو ابھی ہمارے مصحف کی ہے، یہ دلیل درست نہیں اور پہلی بات ہی (کہ سورتوں کی ترتیب آں حضرت ﷺ کے حکم کے موافق ہے) درست ہے؛ کیوں کہ مذکورہ روایتیں (جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے مصاحف کی ترتیب ہمارے مصحف کے خلاف تھی) تمام کی تمام جعلی اور خیالی ہیں، کسی معتبر کتاب میں ان کا وجود نہیں اور امتِ مسلمہ کے اُس توارث کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں جو رسول اللہ ﷺ سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے۔اور الاتقان میں علامہ زرکشی سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ (قرآن کی سورتوں کی ترتیب کے توقیفی ہونے میں اختلاف) لفظی اختلاف ہے، پس جس نے کہا کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی نہیں ہے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قولی طور پر توقیفی نہیں ہے (یعنی نبی کریم ﷺنے صراحت کے ساتھ اس کا حکم نہیں فرمایا تھا، بلکہ) صحابہ کرام آپ ﷺ کے اشارے (یعنی آپ ﷺ کے طرزِ عمل اور اندازِ تلاوت کے ذریعہ) اور دیگر دلالت کرنے والے قرائن سے اس کو سمجھ گئے (اور اسی ترتیب کے مطابق سورتوں کو لکھا) لیکن یہ دلالت بھی قطعی تھی جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔"

(7) قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک، جمہور امت نے اسی موجودہ مرتب قرآن کو نقل کیا اور اسی کی تلاوت کی ہے، اور محدثین کی اصطلاح میں اسے "تواترِ طبقہ" کہا جاتا ہے، اور تواترِ سے جو چیز ثابت ہو وہ قطعی اور یقینی ہوتی ہے، لہٰذا موجودہ مرتب قرآن کا من جانب اللہ ہونا تواتر سے ثابت ہے اور یقینی بات ہے۔

جیسا کہ الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن الحصار: ترتيب السور ووضع الآيات مواضعها إنما كان بالوحي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ضعوا آية كذا في موضع كذا"، وقد حصل اليقين من النقل المتواتر بهذا الترتيب من تلاوة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومما أجمع الصحابة على وضعه هكذا في المصحف."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ١/ ٢١٦، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ: "ابن حصار کہتے ہیں کہ سورتوں میں آیتوں کی اپنے اپنے موقع پر ترتیب اور قرآن میں سورتوں کی اپنی اپنی جگہ پر ترتیب محض وحی کے ذریعے سے ہی عمل میں آئی ہے،  آں حضرت ﷺ خود ہی وحی کے موافق ہر آیت اور سورت کا موقع بیان فرمادیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ میں رکھو (اور اسی کے موافق صحابہ کرام لکھتے پڑھتے تھے)،  اور نبی کریم ﷺ سے متواتر طور پر اسی ترتیب پر تلاوت منقول ہونے اور صحابہ کرام کا قرآن کی اسی ترتیب پر اجماع کرلینے کی بناء پر اسی ترتیب (کے من جانب اللہ ہونے)  پر یقین حاصل ہوچکا ہے۔"

العرف الشذی میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ کا فرمودہے:

"والتواتر عندي أيضا على أربعة أقسام ... والثاني: تواتر الطبقة: وهو أن يأخذ طبقة عن طبقة بلا إسناد، والقرآن متواتر بهذا التواتر، وهذا تواتر الفقهاء."

(أبواب الطهارة، ‌‌باب ما جاء في فضل الطهور، ١/ ٤٠، ط: دار التراث العربي)

ترجمہ: "اور تواتر کی بھی میرے نزدیک چار اقسام ہیں ۔۔۔ اور دوسری قسم تواترِ طبقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ (کسی بات کو) پورا ایک طبقہ دوسرے طبقے سے حاصل کرے، سند (اور عن فلان عن فلان) کے بغیر، اور قرآن مجید بھی اسی تواتر کے قبیل سے متواتر ہے، اور اس تواتر کو تواترِ فقہاء بھی کہتے ہیں۔"

نیز فواتح الرحموت میں ہے:

"وأيضاً ظهر من هذا أن الترتيب الذي يقرأ عليه القرآن ثابت عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فإن القراء العشرة بأسانيدهم الصحاح المجمع على صحتها نقلوا عن رسول الله ﷺ قراآتهم وقرأوا على هذا الترتيب، ونقلوا أن شيوخهم أقرأوهم هكذا، وشيوخ شيوخهم أقرأوهم هكذا إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم."

(الأصل الأول: الكتاب، ٢/ ١٢، ط: دارالكتب العلمية)

ترجمہ:"اور یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ قرآن کی یہ ترتیب جس پر وہ آج پڑھا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے؛  اس لیے کہ وہ دس قاری جن کی قراءت اسلامی دنیا میں باتفاق مقبول ہے، ان دسوں نے اپنی ایسی صحیح سندوں سے جس کی صحت پر تمام امت کا اتفاق ہے، قرآن کو اسی ترتیب سے آں حضرت  ﷺ سے نقل کیا، اور اُن کے استادوں نے اُنھیں اسی طرح سے پڑھایا اور بتایا ہے، اِسی طرح سے برابر یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے۔"

اور ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں ہے:

"این مجموع بین الدفتین مضبوط شد وہمہ عالم برآن متفق گشت چنانکہ نقل متواتر شاہد است بران۔"

ترجمہ: "یہ مجموعہ دو گتوں کے درمیان منضبط ہوگیا اور تمام عالم اس پر متفق ہوگیا، جیسا کہ متواتر طور پر منقول ہونا اس پر شاہد ہے۔"

(ازالۃ الخفاء مترجم، فصل ششم، ٢/ ١٣٧، ط: قدیمی کتب خانہ)

(8) اس کے علاوہ بھی کئی نصوص  اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن مجید نبی کریم ﷺ کے مبارک دور میں ہی لکھا اور مرتب کیا جاچکا تھا، اور اس کے متعدد نسخے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھے۔ مثلاً:

(الف): حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے، جو کہ مکہ مکرمہ میں ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے، اس میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے پاس ایک صحیفہ تھا جس کی تلاوت ہورہی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر پہنچ گئے تھے، بعد میں اسی صحیفے سے سورۂ طہ پڑھنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام ہی سے مسلمانوں میں قرآن کو لکھ کر پڑھنے کا رواج ہوگیا تھا۔

(ب): نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جہاد کے دوران دشمن کی زمین میں قرآن مجید لے جانے سے منع فرمایا (صحيح البخاري: كتاب الجهاد، باب كراهية السفر بالمصاحف إلى أرض العدو، ٤/ ٥٦، الرقم: ٢٩٩٠، ط: دار طوق النجاة)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید اس دور میں بھی لکھا ہوا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس موجود تھا، ورنہ آپ ﷺ کا اُن کو منع  فرمانا بے معنیٰ ہوگا۔

(ج): بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام جس کا نام ذکوان تھا، وہ آپ رضی اللہ عنہا کو مصحف سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا: "وكانت عائشة يؤمها عبدها ذكوان من المصحف." (كتاب الأذان، باب إمامة العبد والمولى ...، ١/ ١٤٠، ط: دار طوق النجاة)

(د): مسند احمد ، دارمی  اور معجم طبرانی وغیرہ میں حدیث ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اُس میں ایک موقع پر یہ ارشاد فرمایا کہ: "يا أيها الناس خذوا من العلم قبل أن يقبض العلم، وقبل أن يرفع العلم"، تو اس  موقع پر ایک اعرابی نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ: "يا نبي الله، كيف يرفع العلم منا وبين أظهرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فيها، وعلمنا نساءنا وذرارينا وخدمنا؟"، اس جملے میں "وبين أظهرنا المصاحف" کے الفاظ اس بات پر صاف دلالت کررہے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس نبی کریم ﷺ کے زمانے ہی میں قرآن مجید لکھا ہوا محفوظ تھا، اور اس کے نسخے گھر گھر موجود تھے۔

(ہ): متعدد احادیثِ مبارکہ میں لکھے ہوئے قرآن مجید میں دیکھ کر  تلاوت کرنے کو زبانی تلاوت کرنے سے افضل بتایا گیا ہے، مثلاً کنز العمال میں ہے: "قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة وقراءته في المصحف تضاعف على ذلك إلى ألفي درجة." (فصل ‌‌في فضائل تلاوة القرآن، ١/ ٥١٦، ط: مؤسسة الرسالة)، "من ‌سره أن يحب الله ورسوله فليقرأ في المصحف." (فصل ‌‌في آداب التلاوة، ١/ ٦٠٤،  ط: مؤسسة الرسالة)، "أفضل عبادة أمتي قراءة القرآن نظرا." (فصل ‌‌في فضائل تلاوة القرآن، ١/ ٥٢٦، ط: مؤسسة الرسالة)

ان تمام نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نبی کریم ﷺ کے مبارک دور میں ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے پاس لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا، اور اس کے بعد سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور تک گھرگھر اس کے متعدد نسخے عوام میں دستیاب تھے، اور اس کی آیات وسورتوں کی ترتیب وہی تھی جو آج ہمارے پاس موجود قرآن مجید کی ہے، جیسا کہ حافظ جلال الدین سیوطی ؒ، امام بیہقی  ؒکا قول نقل کرتے ہیں:

"وقال البيهقي في المدخل: كان القرآن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم مرتبا سوره وآياته على هذا الترتيب إلا الأنفال وبراءة لحديث عثمان السابق ."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ١/ ٢١٦، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ: "اور امام بیہقیؒ کتاب المدخل میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہی کے زمانے میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی ترتیب ہوچکی تھی، مگر عثمان رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث کی بناء پر سورۂ انفال اور براءت اس سے مستثنیٰ ہیں۔"

نیز "الفصل فی الملل والاھواءوالنحل" میں علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں:

"قال أبو محمد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم والإسلام قد انتشر وظهر في جميع جزيرة العرب ... وفي هذه الجزيرة من المدن والقرى ما لا يعرف عدده إلا الله عز وجل كاليمن والبحرين وعمان ونجد وجبلي طي وبلاد مضر وربيعة وقضاعة والطائف ومكة كلهم قد أسلم وبنوا المساجد ليس منها مدينة ولا قرية ولا حلة لأعراب إلا قد قرأ فيها القرآن في الصلوات وعلمه الصبيان والرجال والنساء وكتب ومات رسول الله صلى الله عليه وسلموالمسلمونكذلك ليس بينهم اختلاف في شيء أصلا بل كلهم أمة واحدة ودين واحد ومقالة واحدة ثم ولي أبو بكر سنتين وستة أشهر فغزى فارس والروم وفتح اليمامة وزادت قراءة الناس للقرآن وجمع الناس المصاحف ... فلم يبق بلد إلا وفيه المصاحف ثم مات رضي الله عنه والمسلمون كما كانوا لا اختلاف بينهم في شيء اصلا أمة واحدة ومقالة واحدة ... مات أبو بكر وولي عمر ففتحت بلاد الفرس طولا وعرضا وفتحت الشام كلها والجزيرة ومصر كلها ولم يبق إلا وبنيت فيه المساجد ونسخت فيه المصاحف وقرأ الأئمة القرآن وعلمه الصبيان في المكاتب شرفا وغربا وبقي كذلك عشرة أعوام وأشهرا والمؤمنون كلهم لا اختلاف بينهم في شيء بل ملة واحدة ومقالة واحدة وإن لم يكن عند المسلمين إذ مات عمر مائة ألف مصحف من مصر إلى العراق إلى الشام إلى اليمن فما بين ذلك فلم يكن أقل. ثم ولي عثمان فزادت الفتوح واتسع الأمر فلو رام أحد إحصاء مصاحف أهل الإسلام ما قدر وبقي كذلك اثني عشر عاما حتى مات وبموته حصل الاختلاف وابتداء أمر الروافض."

(‌‌‌‌‌‌‌‌فصل وفي الباب التاسع من إنجيل يوحنا، ‌‌ذكر بعض ما في كتبهم غير الأناجيل من الكذب والكفر والهوس، ٢/ ٦٦، ط: مكتبة الخانجي)

ترجمہ:"ابو محمد (صاحبِ کتاب) فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت تک اسلام پھیل چکا تھا، اور تمام جزیرۂ عرب میں ظاہر ہوچکا تھا ۔۔۔ اس جزیرے میں (یعنی عرب میں) جس قدر شہر اور دیہات ہیں جن کی تعداد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، مثلاً یمن، بحرین، عمان، نجد، طے کے دونوں پہاڑ، بلادِ مضر، بلادِ ربیعہ، بلادِ قضاعہ، طائف، مکہ، یہاں کے تمام باشندے اسلام لے آئے تھے اور مسجدیں بنالی تھیں کہ ان میں سے کوئی شہر کوئی قصبہ یا اعراب کی کوئی منزل ایسی نہ تھی جہاں نمازوں میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو، اور وہاں کے بچوں، عورتوں اور مردوں کو اس کی تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ قرآن لکھ لیا گیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت تک مسلمان اسی حالت پر رہے کہ اُن میں کسی چیز میں قطعی کوئی اختلاف نہ تھا، بلکہ سب کے سب امتِ واحدہ، دینِ واحد اور مقالۂ واحدہ (یک زبان) تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈھائی برس خلیفہ رہے، انہوں نے فارس وروم سے جہاد کیا اور یمامہ کو فتح کرلیا،قراءتِ قرآن میں اضافہ ہوا اور لوگوں نے قرآن جمع کرلیے ۔۔۔ پس کوئی شہر ایسا نہ رہا جس میں متعدد قرآن موجود نہ ہوں، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور مسلمان اسی طرح رہے جس طرح تھے کہ ان میں کسی چیز میں بھی کوئی اختلاف نہ تھا کہ امتِ واحدہ اور مقالۂ واحدہ تھے ۔۔۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور اہلِ فارس کے تمام شہر طول سے عرض تک سب فتح ہوگئے، اور پورا شام، جزیرہ اور تمام مصر فتح ہوگیا، مشرق سے مغرب تک کوئی شہر باقی نہ رہا جس میں مساجد نہ بنائی گئی ہوں، قرآن نہ لکھے گئے ہوں، ائمہ قرآن نہ پڑھتے ہوں، اور مکاتب میں بچوں کو اس کی تعلیم نہ دی جاتی ہو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی حالت کے ساتھ دس سال اور چند ماہ زندہ رہے اور تمام مؤمنین کے درمیان کبھی کسی چیز میں کوئی اختلاف نہیں ہوا، بلکہ وہ سب ملتِ واحدہ ومقالۂ واحدہ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت  مسلمانوں کے پاس مصر سے عراق تک، وہاں سے شام تک، اور وہاں سے یمن تک، پھر ان شہروں کے درمیان، اگر ایک لاکھ قرآن نہ ہوں گے تو اس سے کم بھی نہ ہوں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور فتوحات میں اضافہ ہوا، اور حکومت مزید وسیع ہوگئی، (اس کے ساتھ عالمِ اسلام میں قرآنوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ) اگر کوئی شخص اس وقت اہلِ اسلام کے قرآنوں کو شمار کرنے کا ارادہ کرتا تو اس پر قادرنہ ہوتا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ انہیں حالات میں بارہ سال زندہ رہے، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی، اور آپ کی وفات سے اختلاف شروع ہوا اور امرِ روافض کی ابتداء ہوئی۔"

اسی طرح منار الہدیٰ میں ہے:

"وصح عن عائشة كيفية قراءة النبي - صلى الله عليه وسلم -: ... وفيه: «أُعطِيت مكان التوراة السبع الطوال، وأعطيت مكان الزبور اقلمئين، وأعطيت مكان الإنجيل السبع المثاني وفضلت بالمفصل».

وفيه دلالة على أن القرآن كان مؤلفًا من ذلك الوقت، وإنما جمع في المصحف على شيء واحد."

(‌‌مطلب كيفية قراءة النبي صلى الله عليه وسلم، ١/ ٤٧، ط: دار الحديث)

ترجمہ:"نبی کریم ﷺ کی قراءت سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح طور سے مروی ہے کہ ۔۔۔ اور اسی میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے تورات کی جگہ قرآن میں سات بڑی سورتیں دی گئی ہیں، اور زبور کی جگہ مئین  دی گئی ہیں، اور انجیل کی جگہ  سبع مثانی دی گئی ہیں، اور مفصل کے ذریعہ مجھے فضیلت حاصل ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن آں حضرت ﷺ کے دور مبارک ہی میں مرتب تھا، بعد میں تو صرف ایک مصحف میں اُسے جمع کیا گیا۔"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزول کے وقت سے ہی نبی کریم ﷺ نے اسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لکھوانا شروع کردیا تھا، اور نبی کریم ﷺ کے وصال کے  وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے پاس مکمل قرآن مجید مکتوبہ شکل میں موجود تھا، جس کی آیات وسورتوں کی ترتیب وہی تھی جو اللہ کے نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلائی تھی، تاہم  عام طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس یہ لکھا ہوا  قرآن مجید دو گتوں کے درمیان کسی مصحف کی شکل میں موجود نہیں تھا، بلکہ کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، اور چمڑے کے ٹکڑوں وغیرہ پر متفرق طور پر لکھا ہوا محفوظ تھا، نیز ہر صحابی کے پاس قرآن مجید کی تمام سورتوں کے نسخے بھی موجود نہیں تھے، اور متعدد صحابہ کرام کے نسخوں میں قرآءت کا اختلاف بھی تھا؛ کیوں کہ جس صحابی نے  جتنا قرآن اللہ کے نبی ﷺ سے پڑھا اور جس قرآءت میں پڑھا، اسی قدر اور اسی طرح اُس نے محفوظ کیا، تمام صحابہ نے مکمل قرآن کو جمع کرنے کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی، لہٰذا نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ قرآن مجید کی متفرق سورتوں کے ان نسخوں کو، دو گتوں کے درمیان کاغذ کے صفحات پر نقل کرواکر ایک ساتھ جمع کردیا جائے، چناں چہ اُن کے اصرار پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کام کروایا، اس کے بعد حضرت عشمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب اختلافِ قرآءت کا مسئلہ درپیش ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس فتنے کو رفع کرنے کے لیے سرکاری سطح پر یہ کام کیا کہ حضرت ابوبکر  صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع کیے گئے مصحف کو سامنے رکھ کر اس طرح کے سات مصاحف نقل کروائے اور ہر ایک کا رسم الخط لغتِ قریش کے مطابق رکھا، اور پھر ان مصاحف کو تمام ریاستِ اسلامیہ میں پھیلا دیا اور ساتھ ہی سرکاری حکم نامہ جاری کیا کہ لوگ اب اس مصحف کے مطابق ہی قرآن مجید کے نسخے تیار کریں اور اسی سے نقل کریں۔ بہرحال حضراتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم  نے جمعِ قرآن کی جو خدمت سرانجام دی، اس میں انہوں نے قرآن کی آیات یا سورتوں کی ترتیب میں کوئی دخل اندازی نہیں کی، بلکہ اس کی ترتیب وہی رکھی جو نبی کریم ﷺ کے حکم سے رکھی گئی تھی، ان حضرات نے تو بس متفرق طور پر بکھرے ہوئے قرآن مجید کے نسخوں کو دو گتوں کے درمیان جمع کیا اور امت کو انتشار سے بچانے کے لیے اس کے رسم الخط میں ایک لغت (لغتِ قریش) کو ترجیح دے دی، اور اسی پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا۔

جیسا کہ ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء میں ہے:

"چون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم از دارِ فنا برفیقِ اعلےٰ انتقال فرمود قرآن عظیم مجموع در مصحف نمود، سور وآیات در اوراق نوشتہ درمیانِ اصحاب متفرق یافتہ میشد، اگر آن را مثلے خواہی فرض کن کہ منشیء منشاءٰتِ خود را یا شاعری قصائد ومقطعاتِ خود را در بیاضہا وبرپشتِ کتابہا متفرق گذارد، وآن بمنزلۂ عصافیر برشرفِ ضیاع باشند شاگردی رشید از میانِ شاگردانِ آن منشی یا آن شاعر ہمہ آن را بترتیب مناسب جمع کند واہتمامِ بلیغ درجمع وتصحیح آن بکار برد گویا احیاءِ آن آثار بدست او واقع شود، اول کسے کہ داعیۂ الہٰیہ درخاطراد ریزش نمود ۔۔۔  فاروقِ اعظم بود ۔۔۔ على أن وقع الاختلاف بين القراءفي زمان عثمان بن عفان واشتد الأمر فيه حتى أظهر بعضهم إكفار بعض والبراءة منه وخافوا الفرقة فاستشار عثمان رضي الله تعالى عنه الصحابة في ذالك فجمع الله تعالى الأمة بحسن اختيار الصحابة على مصحف واحد هو أخر العرضات من رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أبوبكر الصديق رضي الله تعالى عنه أمر بكتبه جمعاً بعد ما كان متفرقاً في الرقاع بمشورة الصحابة ... فأمر عثمان بنسخه في المصاحف وجمع القوم عليه وأمر بتحريق ماسواه قطعاً لمادة الخلاف... والمكتوب بين اللوحين هو المحفوظ من الله عزوجل للعباد وهو الامام للأمة."

ترجمہ: "جب آنحضرت ﷺ نے اس دارِ فنا سے رفیقِ اعلیٰ کی طرف انتقال فرمایا، تو قرآن عظیم ایک مصحف میں جمع نہیں تھا، سورتیں اور آیتیں اوراق میں لکھی ہوئی اصحاب کے درمیان متفرق پائی جاتی تھیں۔ اگر تم اس کی کوئی مثال چاہو تو فرض کرلو کہ ایک انشاء پرداز اپنے مضامین کو یا ایک شاعر اپنے قصائد اور قطعات کو بیاضوں میں اور کچھ کتابوں کے اوراق پر متفرق چھوڑ گیا اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ چڑیوں کی طرح اُڑ کر غائب ہوا چاہتے اور بربادی کے کنارے پر لگے ہوئے ہیں، اُس انشاء پرداز یا شاعر کے شاگردوں میں سے ایک شاگردِ رشید اُن سب کو مناسب ترتیب کے ساتھ جمع کرے اور جمع کرنے اور ان کی تصحیح میں پورا کام کرے، تو کہا جائے گا کہ گویا ان آثار کو دوبارہ زندگی اس کے ہاتھ سے ملی ہے، پہلا شخص جس کے دل میں داعیۂ الہٰیہ کا فیضان آیا ۔۔۔ وہ شخص فاروقِ اعظم تھے ۔۔۔ یہاں تک کہ عشمان بن عفان کے زمانے میں قراء کے درمیان اختلاف واقع ہوا، اور اس امر میں شدت پیدا ہوگئی اور کھلم کھلا بعض نے بعض کو کافر کہنا اور بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا، اور مسلمانوں میں تفریق کا صحابہ اندیشہ کرنے لگے، تو عشمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا، تو اللہ تعالیٰ نے امت کو جمع کردیا ایک مصحف پر  صحابہ کے عمدہ اختیار کے ذریعہ سے، ایسے مصحف پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ملاحظہ میں آیا ہوا تھا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صحابہ کے مشورہ کے ساتھ ایک جگہ لکھنے کا حکم دیا تھا جب کہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں میں متفرق تھا ۔۔۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف میں اس کے لکھنے کا حکم دیا اور قوم کا اس پر اجماع ہوگیا، اور حکم دیا کہ جو اس مصحف سے مختلف ہیں اُن کو جلا دیا جائے تاکہ مادۂ اختلاف قطع ہوجائے ۔۔۔ اور جو کچھ دو لوح (یعنی دو گتوں) کے درمیان لکھا ہوا موجود ہے، وہی ہے جس کی حفاظت کا وعدہ اللہ کی طرف سے بندوں کے لیے کیا گیا، اور وہی امت کا امام ہے۔"

(ازالۃ الخفاء مترجم، ساتویں فصل، ٤/ ٢٥٢، ط: قدیمی کتب خانہ)

نیز الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"قال ابن التين وغيره: الفرق بين جمع أبي بكر وجمع عثمان أن جمع أبي بكر كان لخشية أن يذهب من القرآن شيء بذهاب جملته لأنه لم يكن مجموعا في موضع واحد فجمعه في صحائف مرتبا لآيات سوره على ما وقفهم عليه النبي صلى الله عليه وسلم وجمع عثمان كان لما كثر الاختلاف في وجوه القراءة حتى قرؤوه بلغاتهم على اتساع اللغات فأدى ذلك بعضهم إلى تخطئة بعض فخشي من تفاقم الأمر في ذلك فنسخ تلك الصحف في مصحف واحد مرتبا لسوره واقتصر من سائر اللغات على لغة قريش محتجا بأنه نزل بلغتهم وإن كان قد وسع قراءته بلغة غيرهم رفعا للحرج والمشقة في ابتداء الأمر فرأى أن الحاجة إلى ذلك قد انتهت فاقتصر على لغة واحدة."

(‌‌النوع الثامن عشر: في جمعه وترتيبه، ١/ ٢١٠، ط: الهيئة المصرية العامة للكتاب)

ترجمہ: "ابن تین اور چند دیگر علماء کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قرآن کو جمع کرنے میں یہ فرق ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جمع کرانا اس خوف سے تھا کہ مبادا حاملینِ قرآن کی موت کے ساتھ قرآن کا بھی کوئی حصہ جاتا رہے؛ کیوں کہ اُس وقت تمام قرآن ایک ہی جگہ اکھٹا نہیں تھا، چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کو صحیفوں میں اس ترتیب سے جمع کیا کہ ہر ایک سورت کی آیتیں حسبِ بیانِ رسول اللہ ﷺ یکے بعد دیگرے درج کردیں، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قرآن کو جمع کرنے کی یہ شکل ہوئی کہ جس وقت وجوہِ قراءت میں بکثرت اختلاف پھیل گیا اور یہاں تک نوبت آگئی کہ لوگوں نے قرآن کو اپنی اپنی لغتوں میں پڑھنا شروع کیا، اور یہ ظاہر ہے کہ عرب کی لغتیں بہت وسیع ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہرایک لغت کے لوگ دوسری لغت والوں کو برسرِ عام غلط بتانے لگے، اور اس بارے میں سخت مشکلات پیش آنے اور بات بڑھ جانے کا خوف پیدا ہوگیا، اس لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے مصحف کو ایک ہی مصحف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کردیا اور تمام عرب کی لغتوں کو چھوڑ کر محض قبیلۂ قریش کی لغت پر اکتفاء کرلیا، اس بات کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ دلیل پیش کی کہ قرآن کا نزول دراصل قریش ہی کی لغت میں ہوا ہے، اگرچہ ابتداء میں دقت اور مشقت دور کرنے کے لیے اُس کی قراءت لغتِ قریش کے علاوہ عرب کی دوسری لغات میں بھی کرلینے کی گنجائش دے دی گئی تھی، لیکن اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے میں وہ ضرورت پوری ہوچکی تھی، لہٰذا اُنھوں نے قرآن کی قراءت کا انحصار محض ایک ہی لغت (یعنی لغتِ قریش) میں کردیا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں