بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قرض کی واپسی کا تقاضا کرنا ضروری ہے؟


سوال

کیا قرض کی واپسی کا تقاضا کرنا ضروری ہے؟

میں نے سنا ہے کہ اگر قرض دینے والا قرضدار سے قرض کی واپسی کا تقاضا دنیا میں نہیں کرے گا تو قیامت کے دن قرضدار سےپہلے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

اور یہ بھی سنا ہے کہ قرض دینےوالا اکیلا قرض معاف نہیں کر سکتا، بلکہ پورے گھر والوں کے علم میں لانے اور ان سے بھی قرض معاف کروانے کے بعد ہی قرضدار کو قرض معاف کر سکتا ہے۔

جواب

قرض خواہ کے ذمے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضا کرنا ضروری نہیں ہے؛کیوں قرض خواہ(قرض دینے والا)مالک اور حق دار ہوتا ہے،لہذا اسے اختیار ہے کہ اپنے مال کا مطالبہ کرے یا نہ کرے،اور قرض معاف کرنا  چاہے تو قرض معاف بھی کرسکتا ہے۔

اورسائل کی مذکورہ بات کہ "میں نے سنا ہے کہ اگر قرض دینے والا قرضدار سے قرض کی واپسی کا تقاضا دنیا میں نہیں کرے گا تو قیامت کے دن قرضدار سےپہلے جہنم میں ڈال دیا جائے گا" کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ یہ بات خلاف شرع ہے؛اس لیے کہ قرض دینے والے پر جب قرض کی واپسی کا تقاضا کرنا لازم ہی نہیں تو تقاضا  نہ کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینا ظلم ہے،اور ظلم سے اللہ تعالی کی ذات پاک ہے،لہذا مذکورہ بات درست نہیں ہے۔

اسی طرح سائل کی مذکورہ  بات کہ  "سنا ہے کہ  قرض دینےوالا اکیلا قرض معاف نہیں کر سکتا، بلکہ پورے گھر والوں کے علم میں لانے اور ان سے بھی قرض معاف کروانے کے بعد ہی قرضدار کو قرض معاف کر سکتا ہے" کا بھی شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے؛کیوں کہ جس طرح  مالک ہونے کی وجہ سے صرف اور صرف قرض خواہ کو قرض کے مطالبہ کا حاصل ہوتا ہے،اسی طرح  مالک ہونے کی وجہ سے صرف اور صرف قرض خواہ کو  ہی معاف کرنے کا حق حاصل ہے ، اپنا دیا ہوا قرضہ معاف کرنے کے لیے کسی اور سے پوچھنے  کی ضرورت نہیں ہے،خواہ وہ قرض خواہ کے گھر والے ہی کیوں نہ ہوں۔

عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"وللمالك ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه ‌كيف ‌يشاء............".

(كتاب الوصايا، باب الوصية بثلث المال، ج:10، ص:442، ط: دار الفكر، لبنان)

شرح مشکلات القدوری میں ہے:

"قوله: (فإن تأجيل القرض لا يصح)، أي: لا يلزم يعني يصح المطالبة قبل حلول الأجل، وإنما لم يلزم؛ لأنَّه عارية، فأما يصح التأجيل، فلا شك فيه؛ لأنَّه يملك الإبراء المطلق، والتأجيل إبراء مقيّد، فيملكه بطريق [أولى]، فمعنى قوله: (لا يصح)، أي: لا يلزم".

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:1، ص:543، ط: التراث الذهبي الرياض - مكتبة الإمام الذهبي الكويت)

مجمع الضمانات میں ہے:

"لأن الطالب ‌يملك ‌الإبراء".

(باب في الشهادة، باب في الوصي والولي والقاضي، ص:417، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں