بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قضا نمازوں کے فدیہ کا ذکر احادیث میں ہے؟


سوال

 قضا نمازوں کےفدیہ کے بارے میں صحیح حدیث کا حوالہ دیں؛ تاکہ ہماری تسلی ہوجائے ؟

جواب

واضح رہے کہ مرحوم کی قضا  شدہ  نماز وں کے  فدیہ سے متعلق شریعت میں صریح نص نہیں ہے،  البتہ مرحوم کے فوت  شدہ روزوں  کے فدیہ  کا ذکر احادیث میں موجود ہے، اسی پر قیاس کرکے نمازوں کے فدیہ کا حکم فقہاءِ کرام نے  اس صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ امید  ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ فوت شدہ روزوں کا فدیہ قبول فرماکر اس کی تلافی فرمادیں گے، اسی طرح فوت شدہ نمازوں کا فدیہ بھی قبول فرماکر تلافی فرمادیں گے۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر میت اپنی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہ کرے تو ورثاء پر فدیہ دینا واجب نہیں ہوتا، اور اگر وصیت کرے تو بھی قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد ایک تہائی ترکے میں سے ہی ادا کرنا واجب ہوتاہے، جو کہ میت کا حق ہے کہ وہ ایک تہائی ترکے میں کوئی بھی جائز وصیت کرجائے۔

سنن الترمذي (3/ 96):

"عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه و سلم: قال من مات و عليه صيام شهر فليطعم عنه مكان كلّ يوم مسكين."

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (4/ 254):

"أنّ ابن عمر كان إذا سئل عن الرجل يموت وعليه صوم من رمضان أو نذر يقول: لايصوم أحد عن أحد ولكن تصدقوا عنه من ماله للصوم، لكلّ يوم مسكينًا."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه...ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں