بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیاقاتل کی اولادبھی میراث سےمحروم ہوں گے؟


سوال

آج کل مسجد میں درس قرآن میں بنی اسرائیل کا واقعہ جو سورت بقرہ کا وجہ تسمیہ  ( بھتیجے نے چچا کو قتل کر کے دوسرے قبیلے کے سر الزام لگا دیا اور دیت کا مطالبہ کرنے لگا ، جس پر اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کر کے اس کا ٹکڑا لگانے کا حکم دیا ) چل رہا ہے، تو امام صاحب نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں تھا کہ اگر قاتل مقتول کا شرعی وارث بنتا ہو تو قتل کرنے کے  سبب اسے جائیداد سے محروم کر دیا جاتا تھا، اور شریعت محمدی میں بھی ایسا ہی ہے ، توسوال یہ ہےکہ  اگر اس قاتل کے بچے ہوں، تو کیا وہ بھی مقتول کی میراث سےمحروم رہیں گے ؟

جواب

واضح رہےکہ قاتل اگرمقتول کاوارث بنے،توقتل کی بناپروہ میراث سےمحروم ہوجاتاہے،البتہ اگرقاتل کی اولادمقتول کی براہِ راست وارث بنےتوباپ (قاتل)کی وجہ سےاس کی اولادمیراث سےمحروم نہیں ہوگی۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(وموانعه) على ما هنا أربعة (الرق) (والقتل)الموجب للقود أو الكفارة وإن سقطا بحرمة الأبوة على ما مر."

(كتاب الفرائض،٧٦٧/٦،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں