بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قبر میں مردے سنتے ہیں؟


سوال

کیا قبر میں سماع ہےاگرچہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ سماع نہیں ہے لیکن جو سماع کے قائل ہیں انکی دلیل بھی قوی معلوم ہوتی ہے اور کئی مفسرین نے بھی اپنی کتابوں میں سماع کو بتایا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ قبروں میں میت کے سننے اور نہ سننے  کے  مسئلہ میں  دو پہلو ہیں : ایک   انبیاءکرام  علیہم السلام کا  سماع (سننا) اور  ان کی حیات،  اور دوسرا عام لوگوں کا سماع(سننا)۔

  انبیاءِ  کرام علیہم الصلاۃ و السلام کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا اور سننا جمہور امّت کا اجماعی عقیدہ ہے،  انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبور مبارکہ میں حیات ہیں،ان کی وفات کے بعد  ان کی حیات  (جو دنیاوی حیات کے مماثل، بلکہ دنیاوی حیات سے بھی بڑھ کر ہے) اور سماع کا ثبوت جمہور  امت  (بشمول ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ) سے ثابت ہے۔

عام مردوں کے قبروں میں سننے  یا نہ سننے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے  دور  سے ہی دو آراء ہیں ،  دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں،   اہلسنت و الجماعت کے نزدیک  راجح بات یہ ہے کہ  احادیثِ  مبارکہ  میں جن مواقع پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے، ان مواقع پر تو مردوں کا سننا یقینی طور پر ثابت ہے، اس کے علاوہ احوال میں بھی مردے  قبروں  میں سن  سکتے  ہیں،      لیکن یہ ثابت نہیں کہ ہر حال میں ہر شخص کے کلام کو ضرور سنتے ہیں۔

 نیز مردے کا سلام کا جواب دینا ، مانوس ہونا، اور قبر پر آنے والے کو پہچاننا بھی جمہور علماء کے ہاں ثابت ہے۔

شرح الصدور فی حال لموتی و القبور میں ہے:

"أخرج إبن أبي الدنيا في كتاب القبور عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا إستأنس ورد عليه حتى يقوم .وأخرج أيضا والبيهقي في الشعب عن أبي هريرة رضي الله عنه قال إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام .وأخرج إبن عبد البر في الإستذكار والتمهيد عن إبن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام صححه عبد الحق . وأخرج إبن أبي الدنيا في القبور والصابوني في المائتين عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من عبد يمر على قبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(باب زيارة القبور وعلم الموتى بزوارهم ورؤيتهم لهم ص: ۲۰۱ ط: دارالمعرفة)

فیض الباری میں ہے:

"أقول: ‌والأحاديث ‌في ‌سماع الأموات قد بلغت مبلغ التواتر. وفي حديث صححه أبو عمرو: أن أحدا إذا سلم على الميت فإنه يرد عليه، ويعرفه إن كان يعرفه في الدنيا - بالمعنى - وأخرجه ابن كثير أيضا وتردد فيه. فالإنكار في غير محله، ولا سيما إذا لم ينقل عن أحد من أئمتنا رحمهم الله تعالى، فلا بد من التزام السماع في الجملة، وأما الشيخ ابن الهمام رحمه الله تعالى فجعل الأصل هو النفي، وكل موضع ثبت فيه السماع جعله مستثنى ومقتصرا على المورد."

(باب قول المیت و هو علی الجنازۃ جلد ۳ ص: ۴۲ ط: دارالکتب العلمیة)

حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وقال ابن القيم الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

(کتاب الصلوۃ ، باب احکام الجنائز ، فصل فی زیارۃ القبور ص: ۶۲۰ ط: دارالکتب العلمیة)

خیر الفتاوی میں ہے:

"ان دلائل کی رو سے جو شخص بھی عذاب و راحت فقط روح پر مانتا ہواور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات جسمانی کا قائل نہ ہو وہ اہل سنت و الجماعت خارج ہے۔"

(جلد ۱ ص:۱۸۴ ط:مکتبہ امدادیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں