بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا پرائز بانڈ کی انعامی رقم اپنے گھر میں خرچ کرسکتے ہیں؟


سوال

میں نے شادی سے پہلے پرائز بانڈلیے ہوئے تھے، میری شادی کو 21سال ہوچکے ہیں، شادی کےبعد اس پرائز بانڈ کی انعامی رقم نکلی تو میں نےو ہ رقم اپنے گھر پر گریل ،کھڑکی ،واش روم وغیرہ پر لگوائی ،اب دوبارہ میرے پرائز بانڈ کی  انعامی رقم نکلی ہے۔

1. کیا میں اس انعامی رقم کو اپنے گھر میں خرچ کرسکتی ہوں جب کہ میں غریب ہوں، شوہر کماتا نہیں ہے،کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے؟

 2. کیا میں اس رقم کو اپنے واش روم کے کام  وغیرہ پر خرچ کرسکتی ہوں یا نہیں؟ راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

پرائز بانڈ چوں کہ سود اور جوئے پر مشتمل ہوتا ہے؛ اس لیے اس کی خرید و فروخت جائز نہیں، اس سے حاصل ہونے والی رقم شرعاً سود کے حکم میں ہے، اور سود کا لین دین کرنے والوں کے بارے میں حدیث شریف میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ اگر کسی نے لاعلمی میں لے لیا ہے یا  تبادلے میں آگیا ہے  تو بانڈ پر انعام نکلنے کی صورت میں صرف اصل رقم استعمال کرنا جائزہے،  انعامی رقم کا استعمال شرعاً جائز نہیں، اور یہ انعامی رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی زکات کے مستحق کو دینا ضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ پر لازم ہے کہ پرائزبانڈ کی انعامی رقم کسی زکات کے مستحق کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے، البتہ اگر سائلہ  زکات کی مستحق ہو تو پرائز بانڈ کی انعامی رقم  خود بھی استعمال کرسکتی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا الحسن بن موسى، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي الصلت، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أتيت ليلةً أسري بي على قومٍ بطونهم كالبيوت، فيها الحيات ترى من خارج بطونهم، فقلت: من هؤلاء يا جبرائيل؟ قال: هؤلاء أكلة الربا."

وفیه أیضًا:

"حدثنا سماك بن حرب، قال: سمعت عبد الرحمن بن عبد الله، يحدث عن عبد الله بن مسعود، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لعن آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه»".

ترجمہ:  ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے اور اس کے گواہ بننے اور لکھنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

(سنن ابن ماجه، باب التغليظ في الربا، ج:1، ص: 763 /764، رقم الحدیث: 2273 /2277، ط: دار إحياء الكتب العربية)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،ج:3، ص:61،  ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں