بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیاپولیس اہل کاراپنے افسر کی اجازت سے بنا ادارے کو بتائےچھٹی جا سکتا ہے؟


سوال

محترم مفتیان کرام میں ایک پولیس سپاہی ہوں اور میری ڈیوٹی ایک افسر کے گھر میں ہے اور اسی کا بطور خدمت گار ہوں جس کو ہم "باٹ مین" کہتے ہیں ،اور اس کے گھر کے کام کاج کرنے پر مامور ہوں ،اب وہ افسر مجھے کہتا ہے کہ آپ گھر جائیں اور چھٹیاں گزارئے، میں خود گھر کے کام کاج کروں گا آپ جاکے بے فکر چھٹیاں گزاریں، اب میرے لیےیہ تنخواہ لینا کیسا ہے ؟

حالانکہ انہوں نے مجھے خود گھر بھیجاہے، اور تقریباً چار پانچ ماہ ہوگئے کہ میں گھر پر چھٹی گزار رہا ہوں،راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت  اور عمل (کام )کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کےمقررہ وقت پر دفتر  یا جو بھی جائے ملازمت ہو ،اس   میں حاضر رہنے سے ہی  تنخواہ   کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازم  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہتا  تو وہ  اس غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کامستحق نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل  جس افسر کے ہاں ڈیوٹی پر مامور ہے ،اگر وہ اس بات کا مجاز ہے کہ جب چاہے جتنے دن چاہے  سائل یا اپنے ماتحت عملہ کو چھٹی دے دے  ،تو اس صورت میں سائل کا مذکورہ طریقے پر گھر میں چھٹیاں گزارناجائز ہے ، اور اس پر ملنے والی تنخواہ  بھی حلال ہے ۔

اور اگر مذکورہ افسر اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ وہ اپنے ماتحت عملہ یا سائل کو جب مرضی ہو چھٹی دے ،بلکہ چھٹی کے لیے افسرانِ بالا  یاپولیس ادارے کے ضابطہ کے مطابق جو بھی چھٹی فراہم کرنے کا قانون ہے ،اس کی پابندی کرنا یا افسرانِ بالا کو بتانا یا اعتماد میں لینا لازمی ہو ،تو اس صورت میں نہ ہی سائل کے لیے اس  طرح پر چھٹی گزارنا جائز ہے ،اور نا ہی جتنا عرصہ مذکورہ طریقے پر چھٹیاں گزاری ان  کی تنخواہ  حلال ہے ،یا تو وہ تنخواہ محکمہ سے وصول ہی نہ کرے ،اور اگر کر لی تو کسی طریقے سے محکمہ کو واپس کردے ۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬."(سورۃ المائدہ؛1) 

سنن ترمذی میں ہے:  

"عن عمرو بن عوف المزني عن أبیه عن جده رضي اللّٰه عنه أن رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرّم حلالاً أو أحلّ حرامًا، والمسلمون علی شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حرامًا".

(أبواب الأحکام ، باب ما ذکر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم في الصلح بین الناس ، ج : 1 ص : 251 ط : بیروت)

الدر المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر،ج : 6 ، ص:72 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"استأجر حماما وشرط حط أجرة شهرين للعطلة، فإن شرط حطه قدر العطلة صح."

 (کتاب الإجارۃ، شروط الإجارة ج : 6 ص : 44 ط:سعید)

فتح القدير للكمال ابن الہمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم  یعمل  كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، ج:9،ص:140، طبع: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البانی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، جلد:4، ص:423، ط:دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"وفي فتاوى الفضلي - رحمه الله تعالى -: إذا استأجر رجلا يوما ‌ليعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيءآخر سوى المكتوبة وفي فتاوى أهل سمرقند قد قال بعض مشايخنا رحمهم الله تعالى: إن له أن يؤدي السنة أيضا واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى، كذا في الذخيرة."

(كتاب الاجارة،الباب الرابع في تصرف الأجير في الأجرة،ج:4،ص؛416،ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه۔۔۔أقول: سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن تكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ،6/70، ط؛ سعید)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وفي شرْح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشّرع، وهو ما يعود نفعه على الْعامّة، وقدْ نصوا في الْجهاد على امتثال أمره في غير معصیة."

( كتاب الأشربة،6 / 460، ط: دار الفكر)

احكام القرآن لظفر احمد عثمانی میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: 59، 2 / 291 - 291، ط: إدارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوْله: يُعزّر)؛ لأن طَاعة أمرِ السّلْطان بمباح واجبة."

( كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 5 / 168، ط: دار الفكر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن زيد بن أرقم - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له، فلم يف ولم يجئ للميعاد، فلا إثم عليه» " رواه أبو داود، والترمذي.

(«عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي» ) : بفتح فكسر وأصله أن يوفي (له) أي: للرجل (فلم يف) أي: بعذر (ولم يجئ للميعاد) أي: لمانع (فلا إثم عليه) . قال الأشرف: هذا دليل على أن النية الصالحة يثاب الرجل عليها وإن لم يقترن معها المنوي وتخلف عنها. اهـ. ومفهومه أن من وعد وليس من نيته أن يفي، فعليه الإثم سواء وفى به أو لم يف، فإنه من أخلاق المنافقين، ولا تعرض فيه لمن وعد ونيته أن يفي ولم يف بغير عذر، فلا دليل لما قيل من أنه دل على أن الوفاء بالوعد ليس بواجب، إذ هو أمر مسكوت عنه على ما حررته، وسيجيء بسط الكلام على هذا المرام في آخر باب المزاح. (رواه أبو داود والترمذي)."

( كتاب الآداب، باب الوعد، ج:7، ص:3069،  ط:دارالفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506102505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں