ہمارے گاؤں میں 2 ایکڑ رقبہ پر قبرستان قائم ہے جو کہ اپنی گنجائش کے مطابق پُرہو چکا ہے، اب مشورہ کیا گیا ہے کہ جو ایک ایکڑ 50 سال پہلے پُر ہو گیا تھا، جس کی قبروں کے نشان بھی معدوم ہو گۓ ہیں، سوائے چند قبروں کے، اب اس میں بھرتی ڈال کر نئی قبروں کے لیے گنجائش نکالی جائے، کیا ایسا کرنا شرعی طور پر درست عمل ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر بند قبرستان کی قبور مٹ چکی ہیں، تو اس صورت میں اس میں دوبارہ تدفین کا آغاز کرنے کی شرعًا اجازت ہوگی، البتہ اگر کسی قبر سے پہلی تدفین کی کچھ باقیات نکل آئیں تو اسے دفن کرنا ضروری ہوگا، نئے مردے اور پرانے مردے کی باقیات کے درمیان آڑ بنانا بھی ضروری ہوگا، اگر متفرق اور بوسیدہ ہڈیاں نکلیں تو ان کے لیے مستقل قبر بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کسی جگہ گڑھا کھود کر انہیں دفن کردیا جائے۔
فتح القدير لابن الهمام میں ہے:
وَلَا يُحْفَرُ قَبْرٌ لِدَفْنِ آخَرَ إلَّا إنْ بَلِيَ الْأَوَّلُ فَلَمْ يَبْقَ لَهُ إلَّا عَظْمٌ إلَّا أَنْ لَا يُوجَدَ بُدٌّ فَيُضَمُّ عِظَامُ الْأَوَّلِ وَيُجْعَلُ بَيْنَهُمَا حَاجِزٌ مِنْ تُرَابٍ.
( كِتَابُ الصَّلَاةِ ، بَابُ الْجَنَائِزِ، فَصْلٌ فِي الدَّفْنِ،٢ / ١٤١، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وَلَوْ بَلَى الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ.
( كتاب الصلاة، الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ فِي الْجَنَائِزِ ، الْفَصْلُ السَّادِسُ فِي الْقَبْرِ وَالدَّفْنِ وَالنَّقْلِ مِنْ مَكَان إلَى آخَرَ، ١ / ١٦٧، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202200048
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن