بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نکاح کے بعد والے کھانے کو ولیمہ کہا جا سکتا ہے؟


سوال

عمر   کےنکاح کو تقریباً 38 سال ہوچکے ہیں، عمر  کا نکاح کچھ اس طرح ہوا ہے کہ دلہن والے اور اعزاءواقربا سب کو دولہے ہی کے گھر پر مدعو کیا گیا، اور نکاح میں طعام وغیرہ کا نظم دولہے کی طرف سے ہی رہا، اور نکاح کے دوسرے دن بھی دلہن والوں کو گھر میں ماحضر جو موجود تھا  ،وہ کھلادیا گیا،رات کی بریانی اور سالن روٹی کھانے سے فارغ کرنے کے بعد دلہن والے اور دیگر اعزاء و اقرباء واپس اپنے گھروں پر چلے گئے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ عمر  نے یا ان کے والد صاحب نے اس کھانے میں تو ولیمہ کی نیت کی ہی نہیں تھی اور نہ ہی ولیمہ کے تقریب والے کھانے کا نظم کیا تھا تو کیا ان کو یعنی عمر کو اب بھی ولیمہ کرنا چاہیے ؟جب کہ نکاح کو38 سال ہو چکے ہیں۔

جواب

راجح قول کے مطابق    ولیمہ کا مسنون وقت میاں بیوی کے اکٹھا ہونے کے بعد یعنی   شب زفاف اور دخول کے بعد ہے، البتہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو،اُس سے  نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجاتی ہے ،خواہ ولیمہ کی نیت ہو یا نہ ہو،جب ایک دفعہ سنت ادا ہوگئی توسنت کی ادائیگی کے واسطے دوبارہ ولیمہ  کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وحديث أنس: ‌فأصبح ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم ‌عروسا بزينب فدعي القوم، صريح أنها بعد الدخول، واستحب بعض المالكية أن تكون عند البناء ويقع الدخول عقيبها، وعليه عمل الناس".

(كتاب النكاح، باب الصفرة للمتزوج، ج:20،ص:144،ط: دار إحياء التراث العربي)

ارشاد الساری:

"‌واختلف ‌في ‌وقت ‌الوليمة فقال ابن الحاجب من المالكية إنه بعد البناء. قال الشيخ خليل في التوضيح: وهو ظاهر المذهب واستحبها بعض الشيوخ قبل البناء،قال اللخمي وواسع قبله وبعده، ولمالك في العتبية لا بأس إن لم يولم قبل البناء وبعده، وقال ابن يونس: يستحب الإطعام عند عقد النكاح وعند البناء. وقال الباجي: المختار منها يوم واحد، وقال ابن حبيب: وقد أبيح أكثر من يوم ويكره استدامة ذلك أياما انتهى".

(كتاب النكاح، باب الوليمة، ج:8،ص:70،رقم:5167،ط: المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(أولم ولو بشاة) : أي: اتخذ وليمة، قال ابن الملك: تمسك بظاهره من ذهب إلى إيجابها والأكثر على أن الأمر للندب، قيل: إنها تكون بعد الدخول، وقيل: عند العقد، وقيل: عندهما واستحب أصحاب مالك أن تكون سبعة أيام والمختار أنه ‌على ‌قدر ‌حال ‌الزوج".

(كتاب النكاح، باب الوليمة، ج:5، ص:2104، رقم:3210، ط: دار الفكر)

امداد الاحکام میں ہے:

’’ ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو. اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سے  ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے‘‘۔

(کتاب الحظر والاباحہ،باب الرشوۃ والھدایا والضیافات،ج:4،ص:291،ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں