بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا نان و نفقہ اور حقوقِ زوجیت کی عدمِ ادائیگی پر بیوی نکاح فسخ کرا سکتی ہے؟


سوال

میری بہن کا نکاح تقریباً نو سال قبل ہوا تھا۔ ابتدائی ڈیڑھ سال تک ان کے شوہر اُن کا خرچ برداشت کرتے رہے اور ملاقات بھی ہوتی رہی، لیکن اس کے بعد سے اب تقریباً آٹھ سال ہو چکے ہیں کہ نہ تو وہ کوئی خرچ دیتے ہیں، نہ ہی ملاقات کرتے ہیں۔ اُن کے شوہر امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان سے ایک سات سالہ بیٹی بھی ہے، جسے اس کے والد نے آج تک دیکھا تک نہیں۔

ایسی صورتِ حال میں، شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں:

  1. کیا میری بہن عدالت کے ذریعے خلع یا فسخِ نکاح کر کے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟

  2. اگرکر سکتی ہے ، تو عدّت کی مدت کتنی ہوگی اور وہ کہاں گزارنی ہوگی، جب کہ وہ اس وقت اپنے ہی  گھر میں رہائش پذیر ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں، اگر واقعۃً شوہر گزشتہ آٹھ سال سے اپنی بیوی (سائل کی بہن) کا نان و نفقہ ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی اس کے دیگر حقوق پورے کر رہا ہے، تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے طلاق یا باہمی رضامندی کے ساتھ خلع کا معاملہ کر کے علیحدگی اختیار کرے۔

اگر شوہر طلاق دینے یا خلع پر رضامند نہ ہو، تو ایسی صورت میں عورت کسی مسلمان جج کی عدالت میں، شوہر کی طرف سے نان و نفقہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پرمقدمہ دائر کرکےنکاح فسخ کروا سکتی ہے۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے بیوی عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے۔ اس کے بعد شرعی گواہی کے ذریعے یہ بات بھی ثابت کرے کہ اس کا شوہر  نان و نفقہ ادا نہیں کر رہا۔ اگر بیوی عدالت میں اپنے دعوے کو شرعی شہادت کے ذریعے ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے، تو عدالت پہلے شوہر کو حاضر ہونے کا سمن جاری کرے اور اُسے بیوی کے حقوق ادا کرنے کا حکم دے۔اگر شوہر عدالت میں حاضر ہو کر بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے اور حقوق ادا کرنے پر آمادہ ہو جائے، تو نکاح برقرار رہے گا۔ لیکن اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو، یا حاضر ہو کر حقوق کی ادائیگی پر آمادہ نہ ہو، اور طلاق یا خلع دینے پر بھی رضامند نہ ہو، تو پھر عدالت اس نکاح کو فسخ کر دے ۔نکاح فسخ ہونے کے بعد سائل کی بہن عدّت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ صورتِ مسئولہ میں، چونکہ حمل کا کوئی وجود نہیں، لہٰذا عدّت کی مدت پوری  تین ماہواریاں ہوگی، جو وہ اسی گھر میں گزارے گی جہاں وہ اس وقت مقیم ہے۔

واضح رہے کہ عدالت کے بلانے کے باوجود اگر شوہر حاضر نہ ہو، تو عدالت کو شرعاً یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح فسخ کر دے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية."

( كتاب الطلاق ، باب العدة ، ج: 3، ص: 536، ط: سعيد)

حیلہ ناجزہ میں ہے

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير ما نصه: إن منعها نفقة الحال فلها القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه. قال محشيه: قوله: وإلا طلق، أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم، إلى أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أو أجنبي، فقال ابن القاسم: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها، وقال ابن عبد الرحمن: لا مقال لها؛ لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتفى وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف.أنظر الحطاب. انتهى."

(ص: 150،  ط: دار الإشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611100718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں