بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مشت زنی کے بعد کھانا پینا جائز ہے؟


سوال

کیا مشت زنی کے بعد کھانا  پینا جائز ہے؟

جواب

مشت زنی کرنا گناہ  ہے، احادیث میں اس پر لعنت اور وعید آئی ہے، لہٰذا یہ فعلِ قبیح ناجائز ہے، چہ  جائے کہ روزے  میں اس کا ارتکاب کیا جائے، روزے  میں تو اس کی قباحت و شناعت مزید بڑھ جاتی ہے،  روزے  کی حالت  میں مشت  زنی کے نتیجہ میں اگر انزال ہوجائے (منی نکل آئے) تو اس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے اور اس روزہ کی قضا لازم ہوتی ہے،البتہ کفارہ لازم نہیں ہوتا۔نیز ایسے شخص پر  دن کا بقیہ وقت رمضان کے احترام میں کھانے پینے سے  احتراز  کرنا لازم ہے۔ 

 ارشاد باری تعالیٰ ہے :

" وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ " (سورة المؤمنون:23 /5، 6، 7، )

ترجمہ:  اور جو اپنی  شرمگاہوں  کی حفاظت  کرنے والے  ہیں لیکن  اپنی  بیبیوں  سے یا  اپنی  باندیوں  سے ،کیونکہ  ان پر  کوئی الزام  نہیں ۔ہاں جو اس کے علاوہ طلب  گارہوں  ایسے  لوگ  حد سے نکلنے  والے  ہیں   ( از  بیان القرآن )

 ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے ۔

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ."

(شعب الإيمان للبيهقي،ج:7،ص:329،رقم الحديث:5087،ط: مكتبة  الرشد  بالرياض)

فتاوی شامی  میں ہے:

"مطلب في حكم الإستمناء بالكف:(قوله: وكذا الإستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد، لكن هذا إذا لم ينزل، أما إذا أنزل فعليه القضاء ، كما سيصر به ، وهو المختار.''

(كتاب الصوم،مطلب في حكم الإستنماء باليد،ج:2،ص:399،ط:سعيد) 

وفیه أیضا:

"(و الأخيران يمسكان بقية يومهما وجوباً على الأصح)؛ لأن الفطر قبيح وترك القبيح شرعاً واجب، (كمسافر أقام وحائض ونفساء طهرتا ومجنون أفاق ومريض صح) ومفطر ولو مكرهاً أو خطأً (وصبي بلغ وكافر أسلم وكلهم يقضون) ما فاتهم (إلا الأخيرين).

(قوله: والأخيران) أي من تسحر أو أفطر يظن الوقت ليلاً إلخ. والأصل في هذه المسائل: أنّ كل من صار في آخر النهار بصفة لو كان أول النهار عليها للزمه الصوم فعليه الإمساك، كما في الخلاصة والنهاية والعناية اهـ."

(كتاب الصوم ،ج: 2 ،ص:407،408،ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144309100480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں