بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مسلمان کا دیوبندی یا بریلوی ہونا ضروری ہے؟


سوال

بریلوی اور دیوبند کا فتنہ کیوں ایجاد ہوا کیا مسلمان کا دیوبندی یا بریلوی ہونا ضروری ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ  اللہ رب العزت   نے مسلمان کی کامیابی کا مدار آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز عمل کی پیروی پر رکھا ہے، اسی طرح سے  آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت تہترفرقوں میں بٹ جائے گی اوران میں نجات پانے والی جماعت وہ ہے جومیری سنت اورمیرے صحابہ کی جماعت کے طریقہ پرچلنے والی ہو۔

سنن الترمذي میں ہے:

" ٢٦٤١ - حدثنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا أبو داود الحفري، عن سفيان الثوري، عن عبد الرحمن بن زياد الإفريقي، عن عبد الله بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو» النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة. قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي."

( أبواب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، ٤ / ٣٨١، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: " میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس (فعل شنیع) کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے۔"

صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: " یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔"

پس  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے دربار رسالت  مآب  صلی  اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف رجوع کیا کرتے تھے،  اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد اصاغر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، اور اکابرین غير منصوصی مسائل کا حل نصوص کی روشنی میں اجتہاد کی بنیاد پر بتایا کرتے تھے، پھر کبھی تو ایسے مسائل پر صحابہ کرام کا اتفاق ہوتا تھا، اور کبھی مختلف آراء وجود میں آجاتی تھیں، یوں منصوصی مسائل اور  غیر منصوصی مسائل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی تقلید  کرکے  اصاغرین عمل پیرا ہوتے تھے۔

   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کے مبارک دورکے بعد آپ صلی اللہ علیہ  والہ  وسلم کے ارشادات اورصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کے اقوال کی تقلید کی بناء پرجو مذاہب تفصیل سے مدون ومرتب ہوئے، اور جنہیں تکوینی طور قبولیتِ عامہ نصیب ہوئی وہ  ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ،امام مالک، امام شافعی،  امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ کے مسالک ہیں، اور یہی مسالک  حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے  فرمان:  " ما أنا عليه و أصحابي"کے زیادہ موافق اورقریب ہیں۔ پس ان چاروں ائمہ فقہاء میں سے کسی  ایک امام  کی مکمل  تقلید دین پر صحیح طریقہ سے عمل کرنے  کا موجب ہے، یہی وجہ ہے کہ  سلف صالحین نے  فقہاء اربعہ میں سے کسی ایک کی مکمل تقلید  کو واجب قرار دیا ہے۔

امام ابوحنیفہ کے متبعین حنفی کہلاتے ہیں،اس مسلک کی بنیاد  حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات،احادیث اورصحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے خصوصاً خلفاء راشدین کے بعدافضل ترین صحابی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے سفروحضرکے خادم حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی  فقہ پررکھی گئی،جسے  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے علماء ،فقہاء اورزاہدین کی جماعت کی مشاورتی کمیٹی تشکیل دے کر مدون فرمایا، جوکہ   اہل السنۃ والجماعۃ کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔

نیز قدیم زمانہ سے برصغیر پاک و ہند میں  فقہ حنفی  رائج رہی  ہے، جس کے سبب غیر منصوصی  مسائل میں عوام و خواص    فقہ حنفی کے مطابق دین پر عمل پیرا رہے،  اور بر صغیر پر فرنگی تسلط سے قبل  یہاں کے مسلمان اہل سنت والجماعت حنفی کہلاتے تھے،  دیوبندی،  بریلوی  کے اصطلاح وجود میں نہیں آئی تھی،  انگریزی  تسلط  کے خلاف مسلمان ہند نے جید علماء  کرام   کی قیادت  میں  جد و جہد کا آغاز کیا،  اور  1857 کی جنگ آزادی میں علماء  کرام کی ایک بڑی تعداد جام شہادت نوش کرگئی، جس  کے بعد 1866 میں مسلمانان ہند   کی دینی ضرورت کے پیش نظر  قصبہ دیوبند میں ایک   عملی ادارہ "  دار العلوم "  کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد   یہ تھا کہ  فرنگی تسلط اور جنگ آزادی کی وجہ سے مسلمانان ہند میں جو خرابیاں و دین سے دوری یا دین بیزاری پیدا ہوئی ہے، اسے ختم کیا جائے، اور  دینی تعلیمات جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ  والہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہیں، اورجنہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے  علماء، فقہاء اورزاہدین کی   مشاورت سے مرتب کیا تھا، اس پر نا صرف خود  عمل پیراہوا جائے، بلکہ  تعلیم دین کا سلسلہ جاری کیا جائے، اور 1857 کی جنگ آزادی میں علماء  کرام کی بڑی تعداد کی شہادت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا جا سکے، تاکہ عوام کی رہنمائی  کے لیے علماء کرام تیار کیے جا سکیں۔

دوسری طرف   1904 میں قصبہ بریلی میں "دار العلوم  منظر الاسلام" کے نام سے  ایک اور ادارہ   قائم کیا گیا، جس کے نتیجہ میں  ایک طبقہ تصوف وسلوک اوربعض دیگرمسائل میں اہل سنت والجماعت  مسلک حنفی کی راہ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کاشکارہوگیا،اس طبقہ کے بانی  کاتعلق چونکہ بریلی سے تھا؛   اس وجہ سے یہ طبقہ بریلوی کہلانے لگا۔

یوں برصغیر  پاک و ہند میں بسنے والے حنفی مسلک سے وابستہ مسلمانوں  کے دونام مشہورہوگئے ایک شاخ اپنے بانی کی نسبت کی وجہ سے   " بریلوی"    کہلائی جانی لگی، جبکہ  دوسری   شاخ  قصبہ دیوبند میں  واقع دار العلوم  کی طرف نسبت کی وجہ سے "دیوبندی "کہلائی۔

پس دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے دیوبندی یا بریلوی ہونا  ضروری نہیں، البتہ دین پر  صحیح  طور پر عمل  کرنا ضروری ہے، اور دین پر عمل پیرا ہونے کا آسان ذریعہ   فقہاء اربعہ میں سے کسی ایک فقیہ کی تقلید کرنا  ہے۔

پس صورت مسئولہ میں مسلمان کا دیوبندی یا بریلوی  ہونا ضروری نہیں، البتہ "ما أنا عليه وأصحابي" کے موافق دین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اور دار العلوم دیوبند اور اس کی طرف منسوب ادارے و افراد اللہ کے فضل و کرم سے اسی راہ پر گامزن ہیں اور اس وقت پاک و ہند میں اہل سنت و الجماعت کے ترجمان ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: " اختلاف امت اور صراط مستقیم " از مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ، اور " محاضرات بر رد بریلویت"  از  مفتی محمد امین صاحب پالن پوری 

عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد میں ہے:

" اعلم أن في الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة وفي الإعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ونحن نبين ذلك بوجوه.

أحدها أن الأمة اجتمعت على أن يعتمدوا على السلف في معرفة الشريعة فالتابعون اعتمدوا في ذلك على الصحابة وتبع التابعين اعتمدوا على التابعين وهكذا في كل طبقة اعتمد العلماء على من قبلهم والعقل يدل على حسن ذلك لأن الشريعة لا تعرف إلا بالنقل والإستنباط والنقل لا يستقيم إلا بأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ولا بد في الإستنباط أن تعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ويبني عليها ويستعين في ذلك كل بمن سبقه لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد إلا بملازمة أهلها وغير ذلك نادر بعيد لم يقع وإن كان جائزا في العقل وإذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلا بد من أن تكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح أو مدونة في كتب مشهورة وأن تكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ويخصص عمومها في بعض المواضع ويقيد مطلقها في بعض المواضع ويجمع المختلف منها ويبين علل أحكامها وإلا لم يصح الاعتماد عليها وليس مذهب في هذه الأزمنة المتأخرة بهذه الصفة إلا هذه المذاهب الأربعة اللهم إلا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لا يجوز الاعتماد على أقاويلهم.

وثانيها قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعوا السواد الأعظم ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم."

( المقدمة، باب تأكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة، التشديد في تركها والخروج عنها ، ص: ١٣، ط: المطبعة السلفية - القاهرة)

التقرير والتحبير علي تحرير كمال ابن الهمام لإبن امیر الحاج میں ہے:

"(تكملة نقل الإمام) في البرهان  (إجماع المحققين على منع العوام من تقليد أعيان الصحابة بل من بعدهم) أي بل قال: بل عليهم أن يتبعوا مذاهب الأئمة (الذين سبروا ووضعوا ودونوا) ؛ لأنهم أوضحوا طرق النظر وهذبوا المسائل وبينوها وجمعوها بخلاف مجتهدي الصحابة فإنهم لم يعتنوا بتهذيب مسائل الاجتهاد ولم يقرروا لأنفسهم أصولا تفي بأحكام الحوادث كلها، وإلا فهم أعظم وأجل قدرا، وقد روى أبو نعيم في الحلية أن محمد بن سيرين سئل عن مسألة فأحسن فيها الجواب فقال له السائل ما معناه ما كانت الصحابة لتحسن أكثر من هذا فقال محمد لو أردنا فقههم لما أدركته عقولنا. 

(وعلى هذا) أي على أن عليهم أن يقلدوا الأئمة المذكورين لهذا الوجه (ما ذكر بعض المتأخرين) وهو ابن الصلاح (منع تقليد غير)  الأئمة (الأربعة) أبي حنيفة ومالك والشافعي وأحمد -رحمهم الله- (لانضباط مذاهبهم وتقييد) مطلق (مسائلهم وتخصيص عمومها) وتحرير شروطها إلى غير ذلك (ولم يدر مثله) أي هذا الشيء (في غيرهم) من المجتهدين (الآن لانقراض أتباعهم) .

وحاصل هذا أنه امتنع تقليد غير هؤلاء الأئمة؛ لتعذر نقل حقيقة مذهبهم؛ وعدم ثبوته حق الثبوت لا؛ لأنه لا يقلد ومن ثمة قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام: لا خلاف بين الفريقين في الحقيقة بل إن تحقق ثبوت مذهب عن واحد منهم جاز تقليده وفاقا، وإلا فلا وقال أيضا إذا صح عن بعض الصحابة مذهب في حكم من الأحكام لم يجز مخالفته إلا بدليل أوضح من دليله هذا وقد تعقب بعضهم أصل الوجه لهذا بأنه لا يلزم من سبر هؤلاء كما ذكر وجوب تقليدهم؛ لأن من بعدهم جمع وسبر كذلك إن لم يكن أكثر ولا يلزم وجوب اتباعهم بل الظاهر في تعليله في العوام أنهم لو كلفوا تقليد الصحابي لكان فيه من المشقة عليهم من تعطيل معايشهم وغير ذلك ما لا يخفى، وأيضا كما قال ابن المنير يتطرق إلى مذاهب الصحابة احتمالات لا يتمكن العامي معها من التقليد ثم قد يكون الإسناد إلى الصحابي لا على شروط الصحة، وقد يكون الإجماع انعقد بعد ذلك القول على قول آخر.

ويمكن أن تكون واقعة العامي ليست الواقعة التي أفتى فيها الصحابي وهو ظان أنها هي؛ لأن تنزيل الوقائع على الوقائع من أدق وجوه الفقه وأكثرها غلطا وبالجملة القول بأن العامي لا يتأهل لتقليد الصحابة قريب من القول بأنه لا يتأهل للعمل بأدلة الشرع إما؛ لأن قوله حجة فهو ملحق بقول الشارع، وإما؛ لأنه في علو المرتبة يكاد يكون حجة فامتناع تقليده لعلو قدره لا لنزوله فلا جرم أن قال المصنف (وهو) أي هذا المذكور (صحيح) بهذا الاعتبار."

( إجماع المحققين على منع العوام من تقليد أعيان الصحابة، ٣ / ٢٥٣ - ٢٥٤، ط: دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں