بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ملتقط لقطہ پر کیے ہوئے خرچے کا مطالبہ مالک سے کرسکتا ہے؟


سوال

زاہد ایک سرکاری ملازم ہے اور اس کو سرکاری رہائشی علاقہ میں ایک سرکاری کمرہ رہائش کے لیے ملا ہوا ہے، اس کے کمرے میں ایک سائیکل ایک سال سے زیادہ عرصہ تک کھڑی رہی تھی اور وہ سب سے پوچھتا رہا کہ یہ کس کی ہے؟ لیکن اس کا کوئی وارث نہیں ملا، تقریباً دو سال پورے ہونے والے تھے کہ زاہد نے اس سائیکل کو ٹھیک کروا لیا اور اس پر زاہد نے 2500 روپے کا خرچہ کیا، جب سائیکل ٹھیک ہو گئی تو ایک ماہ بعد حامد جو اس جگہ کاروبار کر رہا تھا، اس سائیکل کا وارث بن گیا کہ یہ سائیکل شاید میری ہے اور زاہد نے اس کو بولاہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی ہو، اس طرح اتنے عرصہ سے میرے کمرے میں تھی اور بارشوں اور دھوپ سے خراب ہو چکی تھی، اس پر میں نے اتنا خرچہ کیا ہے، اگر آپ کی ہے تو مجھے میرا خرچہ دے دو اور سائیکل لے لو، تو انہوں نے خرچہ نہیں دیا اور زاہد پہلے نوشہرہ ڈیوٹی کر رہا تھا اور اس کو راولپنڈی بھیج دیا گیا اور جاتے ہوئے زاہد سائیکل گھر لے کر گیا اور اس کے ایک رشتے دار نے سائیکل خرید لی، اب دوبارہ دو سال بعد زاہد کی ڈیوٹی تبدیل ہو کر نوشہرہ لگ گئی اور حامد جو اس وقت سائیکل کا وارث بنا تھا، سائیکل مانگ رہا ہے اور خرچے کے مطالبے پر جواب دے رہا ہے کہ مجھ سے پوچھ کر خرچہ کیا ہے؟ میں خرچہ نہیں دیتا اور مجھے میری سائیکل واپس لا کر دو، زاہد نے سائکل کو رنگ بھی کیا تھا اور اس میں کچھ چیزیں بھی ڈالی تھیں، اگر اس وقت زاہد خود نہ بتاتا تو حامد کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ سائیکل اس کی ہے۔

اب آپ بتائیں کہ اسلام میں کیا حکم ہے کہ زاہد اپنے خرچہ کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ اور حامد پر خرچہ دینا لازم ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زاہد کے کمرے میں موجود سائیکل کا حکم شرعاً لقطہ کا تھا، یعنی زاہد پر بطورِ امانت اس کی حفاظت کرنا اور اس کے مالک کو تلاش کرنا لازم تھا، لہٰذا جب اس سائیکل کا مالک حامد مل گیا اور وہ اپنی سائیکل کا مطالبہ بھی کررہا ہے تو زاہد کے اوپر شرعاً لازم ہے کہ وہ حامد کو اس کی سائکل واپس کردے، زاہد کے لیے اس سائیکل کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا، یا آگے بیچ دینا جائز نہیں ہے، اور زاہد نے سائیکل پر جو خرچہ کیا ہے، اس کا حکم تبرع اور احسان کا ہے، لہٰذا زاہد کے لیے حامد سے اس خرچے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اب چوں کہ زاہد نے وہ سائیکل فروخت کردی ہے تو زاہد کے اوپر لازم ہے کہ وہ یا تو سائیکل خریدار سے واپس لاکر حامد کے حوالے کرے، یا پھر سائیکل کی قیمت حامد کو ادا کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" ‌‌كتاب اللقطة (هي) بالفتح وتسكن: اسم وضع للمال الملتقط عيني. وشرعا مال يوجد ضائعا ابن كمال. وفي التتارخانية عن المضمرات: مال يوجد ولا يعرف مالكه، وليس بمباح كمال الحربي. وفي المحيط (رفع شيء ضائع للحفظ على غير لا للتمليك) وهذا يعم ما علم مالكه كالواقع من السكران، وفيه أنه أمانة لا لقطة لأنه لا يعرف بل يدفع لمالكه."

(كتاب اللقطة، ج: 4، ص: 276، ط: دار الفكر بيروت)

وفیه أيضاً:

"(وهو في الإنفاق على اللقيط واللقطة متبرع) لقصور ولايته."

(كتاب اللقطة، ج: 4، ص: 281، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں