بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مفتی ،مولوی ،حافظ جیسے القاب صحابہ کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے یا نہیں؟


سوال

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اسلام میں  مولوی، مفتی  کا کوئی تصور نہیں ہے،اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسے القاب کا لاحقہ ہوتا تھا ،تو پھر اب کیوں مولوی، مفتی وغیرہ لگاتے ہیں؟

اس کا جواب مطلوب ہے معترض نے اس پر ایک پوری تحریر بھیجی ہے ،آپ حضرات کی خد مت میں وہ تحریر درج ذیل بھیجي جا رہی ہے ،امید کہ آپ حضرات شریعت کی روشنی میں صحیح جواب عنایت فرماکر عند اللہ وعند الناس مشکور ہوں گے۔ 

جواب

واضح رہے کہ" مولیٰ" فصیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآن مجید، احادیث مبارکہ اورکلام عرب میں موجودہے، اسی لفظ کے ساتھ متکلم یا غائب کی ضمیر ( "نا،ہ،ھم" ضمیر) بطورمضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے، جہاں تک اس کے سب سے پہلے استعمال کی بات ہے تو خود اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریل امین اور  نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ." ﴿التحريم: ٤﴾(یعنی) اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے، یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہل ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایاہے، جس سے معلوم ہواکہ جبریل امین اور تمام نیکو کار اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں، اور یہ ایسے لوگوں کے لیے" مولیٰ" کا لقب استعمال ہوسکتا ہے اور جائز ہے۔(١)

مزید برآں  خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: "یا زید انت مولانا"۔ معلوم ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایاکہ:"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"۔(٢)

نیز لغت کے اندر عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے، چنانچہ ہمارے دیار کے عرف میں دینی پیشوا مقتدٰی کے لیے  تعظیماًعالم، مولوی، مفتی  کا لفظ خاص کیا گیا ،اور جن لوگوں نے  فتوی و افتاء  کی ذمہ داری اٹھائی ہے، ان کے لیے مفتی کا لفظ  خاص کیا  ہے،یہ  مذکورہ القاب  کسی علماء کی مجلس  کمیٹی نے منتخب نہیں کیے، بلکہ مذكوره القاب  عرف میں اہلِ علم  اور  اہلِ افتاء کے لیے بطورِ تعظیم کے استعمال ہوتے ہیں ،جس طرح عرب کے عرف میں شیخ کا لفظ تعظیم کے لیے خاص ہو گیا ۔(٣)

یہی مثال اردو ادب   میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لفظ حضور اور حضرت کی ہے کہ اس کو کسی نص  سے تلاش نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ ہمارے عرف کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم  کے لیے  خاص کر لیا گیا ہے ۔

کیا صحابہ کے دور میں  عالم، مفتی ،حافظ کے القاب  تھے یا نہیں ؟

  مذكوره القاب  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کےلیے استعمال بھی ہوئے ہیں اور اس پر کئی احادیث شاہد ہیں ،اسلامی  معاشرے میں حفاظ کرام کی امتیازی شان کو واضح کرنےکے لیے احادیث مبارکہ میں انہیں مختلف القابات سے نوازا گیا ، مثلاً’’حامل القرآن""صاحب القرآن"،"اھل القرآن"، ’’جامع القرآن"، حافظ القرآن" اور مسلم شریف کی ایک روایت میں"عالم"کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،اسی طرح صحابہ کرام کے دور  میں قاریوں کی ایک جماعت تھی ،جو کہ "قراء "کے نام سے معروف ومشہور تھی ۔(٤)

اسی طرح  حافظ قرآن جیسی نسبت خود اللہ تعالیٰ  نے اپنی ذات کے لیے استعمال کی ہے ،چنانچہ ارشادِ باری ہے "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)یعنی ہم نے ہی قرآن کو اتارا اور ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

اہلِ علم کو خود اللہ تعالی ٰ نے علماء کے لقب سے خطاب فرماکر ان   کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے "اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ(28) یعنی اللہ کے بندوں میں وہی اللہ سے ڈرتے ہیں ،جوعلم والے  ہیں ،بےشک اللہ عزت والا ، بخشنے والاہے۔
اسی طرح مفتی کا معنی ہے’’فتوی بتانے والا‘‘۔ قران پاک میں ’’افتاء‘‘ کا لفظ خود رب العالمین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ ."﴿النساء: ١٢٧﴾

ترجمہ:"اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ( حکم) دریافت کرتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے بارے میں فتویٰ(حکم )دیتے ہیں ، اور وہ آیات بھی جو قرآن کے اندر تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔"

کلالہ کے سلسلہ میں آیت نازل ہوئی۔

"يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ."﴿النساء: ١٧٦﴾

ترجمہ:"لو گ آپ سے فتویٰ (حکم) دریافت کرتے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ الله  تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں  فتویٰ( حکم) دیتے ہیں۔"

ان آیات مبارکہ میں ’’ افتاء اور فتوی ‘‘ کی نسبت خود رب العزت کی طرف کی گئی ہے۔
اس امت کے مفتی اعظم خود رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکت ہیں، اور آپ وحی کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے فتوی دیا کرتے تھے ،آپ کے بعد  وارثینِ انبیاء ہونے کی وجہ سےفتوی کی ذمہ داری کو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا۔(٥)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں فتوی دینے والے صحابہ کرام کی مجموعی تعداد ایک سوتیس سے بھی زائد تھی ، جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل تھے، البتہ زیادہ فتوی دینے والے سات حضرات تھے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ۔(٦)
اس ساری تفصیل سے واضح ہوا کہ حافظ، عالم اور مفتی کے القابات کا استعمال صرف عوام الناس میں امتیاز اور فرق کے لیے کیاجاتا ہے، ان کو لازم نہیں سمجھا جاتا اور یہ القابات ان اہل علم کا دنیا میں اعزاز و اکرام ہے ، جس کا حکم احادیث مبارکہ میں دیاگیا ہے۔
باقی  معترض کا یہ کہنا کہ صحابہ اپنے لیے یہ الفاظ کیوں نہیں استعمال کرتے تھے ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین کو "صحابی" کا عظیم لقب ملا، اور بلاشبہ "صحابی" کا لقب دین اور دنیا کا عظیم لقب ہے ،اور اصطلاحی وعرفی لحاظ سے اہلِ علم کے لیے استعمال ہونے والے " عالم اور مفتی "  کے القابات سے ہزارہا  درجے افضل اور بہتر ہے، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام کے مزید شرف اور فضیلت کو بیان کرنے کے لیے بعض صحابہ کرام کے لیے مفتی ،عالم ، حافظ وغیرہ کے الفاظ والقاب استعمال کیے جاتے تھے۔

باقی عرف میں جن لوگوں نے دین داری ،علم وعمل کی ترویج اور  نشرو اشاعت کو  اپنا مقصد بنایا ہوا ہے ،ان کے لیے عرف نے بطورِ ادب وتعظیم کے مذکورہ القاب کا انتخاب کیا ہے ،اور ان کو  مسلم معاشرے میں بطورِ اعزاز واکرام کے انہی القاب کے ساتھ پکارا اور ياد كيا جاتا ہے  ،جب کہ کسی بھی عمل،منصب،یاشخصیت  کو کسی قسم کو عرفی یااصطلاحی شناخت دینا شرعاممنوع نہیں ہے ،البتہ القاب میں مبالغہ آرائی اور بے جااستعمال شرعاً ممنوع ہے۔(٧)

چنانچہ ہمارے عرف میں " مولانا" کالفظ خاص اصطلاح کے درجے میں ہے، جوہردرس نظامی سے فارغ التحصیل کے لیے استعمال ہوتی ہے، اسی طرح لفظ" مفتی "ہمارے عرف ميں  اس عالم  کو کہا  جاتا ہے،جوفقہ کے متخصص ہوں،اور اس سے لوگ روز مرہ کے  فقہی مسائل میں رجوع کرتے ہوں ، اسے اصطلاحات  کی گنجائش کے زمرے میں  سمجھا جاسکتاہے،نیز  یہ بھی واضح رہے کہ یہ القاب کا استعمال کوئی فرض یاواجب کے درجہ میں نہیں ہے ،جس کا کہنا لازم وضروری ہو ،البتہ  اہلِ علم کی تعظیم وتوقیر  اسی لائق ہے،کہ ان کو  مذکورہ القاب سے پکارا جاسکتا ہے ۔

اس لیے یہ کہنا کہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم اجمعین کے مقدس دور میں ان القاب کا استعمال سرے سے تھا ہی نہیں درست نہیں ۔

باقی سائل نے جو تحریر لکھی ہے ،وہ ہمارے پاس نہیں پہنچی ،اس لیے اس کو دیکھے ،پڑھے بغیر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔

دلائلِ ملاحظہ ہوں :

(١)وفی القرآن الحکیم:

"اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَاۚ-وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ."(التحريم:4)

ترجمہ:"اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے اور اگر تم دونوں چڑھائی کرو گی اس پر تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھے مددگار ہیں۔"(تفسیر عثمانی)

(٢)وفي السنن الكبري :

"عن البراء بن عازب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌قال ‌لزيد بن حارثة في حديث ابنة حمزة:، أنت أخونا ومولانا."

(زيد الحب بن حارثة بن شراحيل بن عبد العزى،ج:3،ص؛32،ط:دارالكتب العلمية)

وفي المسند للامام احمدؒ:

"عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، قال: شهدت عليا، في الرحبة ينشد الناس: أنشد الله من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم: " من كنت ‌مولاه فعلي ‌مولاه ."

(مسند علي بن أبي طالب  رضي الله عنه،ج:2،ص:269،ط:مؤسسة الرسالة)

(٣)وفي  تفسير الرازي :

"المسألة الأولى: قال الواحدي رحمه الله:الاستفتاء طلب الفتوى يقال: استفتيت الرجل في المسألة فأفتاني إفتاء وفتيا وفتوى، وهما اسمان موضوعان موضع الإفتاء، ويقال: أفتيت فلانا في رؤيا رآها إذا عبرها قال تعالى: يوسف أيها الصديق أفتنا في سبع بقرات سمان [يوسف: 46] ومعنى الإفتاء إظهار المشكل، وأصله من الفتى وهو الشاب الذي قوي وكمل، فالمعنى كأنه يقوى ببيانه ما أشكل ويصير قويا فتيا."

(سورة النساء:127،ج:11،ص:233،ط:دارإحياء التراث)

وفي الموسوعة الفقهية:

"‌‌فتوى"

‌‌التعريف:

1 - الفتوى لغة: اسم مصدر بمعنى الإفتاء، والجمع: الفتاوى والفتاوي، يقال: أفتيته فتوى وفتيا إذا أجبته عن مسألته، والفتيا تبيين المشكل من الأحكام، وتفاتوا إلى فلان: تحاكموا إليه وارتفعوا إليه في الفتيا، والتفاتي: التخاصم، ويقال: أفتيت فلانا رؤيا رآها: إذا عبرتها له (1) ومنه قوله تعالى حاكيا: {يا أيها الملأ أفتوني في رؤياي} . (2)

والاستفتاء لغة: طلب الجواب عن الأمر المشكل، ومنه قوله تعالى: {ولا تستفت فيهم منهم أحدا} (3) وقد يكون بمعنى مجرد سؤال، ومنه قوله تعالى: {فاستفتهم أهم أشد خلقا أم من خلقنا} (4) ، قال المفسرون: أي اسألهم."

(فتوي،ج:32،ص:20 ،ط:دارالسلاسل)

وفي الشاميه :

"مطلب رسم ‌المفتي."

(قوله: رسم ‌المفتي) أي العلامة التي تدل ‌المفتي على ما يفتي به وهو مبتدأ، وقوله أن إلخ خبره. قال في [فتح القدير] : وقد استقر رأي الأصوليين على أن ‌المفتي هو المجتهد، فأما غير المجتهد ممن يحفظ أقوال المجتهد فليس بمفت، والواجب عليه إذا سئل أن يذكر قول المجتهد كالإمام على وجه الحكاية، فعرف أن ما يكون في زماننا من فتوى الموجودين ليس بفتوى، بل هو نقل كلام ‌المفتي ليأخذ به المستفتي."

(مقدمة،ج:1،ص؛69 ،ط:سعيد)

وفي الموسوعة الفقهية:

"والفتوى في الاصطلاح:

تبيين الحكم الشرعي عن دليل لمن سأل عنه   وهذا يشمل السؤال في الوقائع وغيرها."

والمفتي لغة: اسم فاعل أفتى، فمن أفتى مرة فهو مفت، ولكنه يحمل في العرف الشرعي بمعنى أخص من ذلك، قال الصيرفي: هذا الاسم موضوع لمن قام للناس بأمر دينهم، وعلم جمل عموم القرآن وخصوصه، وناسخه ومنسوخه، وكذلك السنن والاستنباط، ولم يوضع لمن علم مسألة وأدرك حقيقتها، فمن بلغ هذه المرتبة سموه بهذا الاسم، ومن استحقه أفتى فيما استفتي فيه."

وقال الزركشي: المفتي من كان عالما بجميع الأحكام الشرعية بالقوة القريبة من الفعل."

فتوي،ج:32،ص:20،ط:دارالسلاسل)

وفي المجموع شرح المهذب للنوويؒ:

"فصل  : ‌شرط ‌المفتى كونه مكلفا مسلما ثقة مأمونا متنزها عن أسباب الفسق وخوارم المرؤة فقيه النفس سليم الذهن رصين الفكر صحيح التصرف والاستنباط متيقظا."

(باب (آداب الفتوى والمفتي والمستفتي)،ج:1،ص؛41،ط:دارالفكر)

(٣)وفي  تاج العروس للزبيدي :

"{مولوي؛ ومنه استعمال العجم} المولوي للعالم الكبير."

(ولي ،ج:40،ص:253،ط:دارالهداية)

وفي  الصحاح تاج اللغة:

"‌‌[ولى] الولي: القرب والدنو. يقال: تباعد بعد ولى. و " كل مما يليك "، أي مما يقاربك...والمولى: المعتق، والمعتق، وابن العم، والناصر، والجار. والولي: الصهر، وكل من ولي أمر واحد فهو وليه."

(ولي ،ج:6،ص:2528،ط:دارالعلم للملايين)

وفي الوسوعة الفقهية:

" العالم "

هو الذي ينتفع الناس بعلمه في ‌فتوى أو تدريس أو تصنيف أو تذكير. فترتيبه في الأوراد يخالف ترتيب العابد فإنه يحتاج إلى المطالعة في الكتب والتصنيف والإفادة، فإن استغرق الأوقات في ذلك فهو أفضل ما يشتغل به بعد المكتوبات ورواتبها، وكيف لا يكون كذلك وفي العلم المواظبة على ذكر الله تعالى وتأمل ما قال الله تعالى وقال رسوله، وفيه منفعة الخلق وهدايتهم إلى طريق الآخرة؟ ورب مسألة واحدة يتعلمها المتعلم فيصلح بها عبادة عمره، ولو لم يتعلمها لكان سعيه ضائعا."

(العالم ،ج:43،ص:102،ط:دارالسلاسل)

(٤) وفي شعب الإيمان للبيهقيؒ:

"عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث لا يكترثون للحساب ولا تفزعهم الصيحة ولا يحزنهم الفزع الأكبر حامل القرآن يؤديه إلى الله بما فيه يقدم على ربه عز وجل سيدا شريفا حتى يوافق المرسلين ومن أذن سبع سنين لا يأخذ على أذانه طمعا وعبد مملوك."

(‌‌فصل في تنوير موضع القرآن556/2، ط: دار الکتب العلمیة)

وفي مسندللإمام أحمد: 

"عن عبد الله بن عمرو عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال :« يقال لصاحب القرآن يوم القيامة اقرأه وارقه ورتل كما كنت ترتل فى الدنيا ، فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها."

(‌‌مسند عبد الله بن عمرو بن العاص  رضي الله عنهما،403/11، ط: مؤسسة الرسالة)

وفي سنن ابن ماجه: 

"عن أنس بن مالك قال:قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: أن لله أهلين من الناس، قالوا يا رسول الله من هم ؟ قال: هم أهل القرآن أهل الله وخاصته."

(باب فضل من تعلم القرآن وعلمه،78/1، ط: دارإحياء الكتب العربي)

 وفي سنن الترمذی: 

"فأول من يدعو به : رجل جمع القرآن ، ورجل قتل في سبيل الله ، ورجل كثير المال."

(‌‌باب ما جاء في الرياء والسمعة،591/4، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفي الباني)

وفي الجا مع الصحیح البخاری:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" مثل الذي يقرا القرآن وهو حافظ له مع السفرة الكرام البررة."

 (باب: تفسير سورة: (عبس)،ج:4،ص:1882،ط:دارابنِ كثير)

وفي الصحیح  المسلم: 

"ورجل تعلم العلم وعلمه وقرأ القرآن فأتي به فعرفه نعمه فعرفها قال فما عملت فيها قال تعلمت العلم وعلمته وقرأت فيك القرآن قال كذبت ولكنك تعلمت العلم ليقال عالم وقرأت القرآن ليقال هو قارئ فقد قيل۔۔۔."

(‌‌باب من قاتل للرياء والسمعة استحق النار،ج:6،ص:47،ط:دارالطباعة العامرة)

وفي الإصابة في تمييز الصحابة: 

"عن الشعبي قال ركب زيد بن ثابت فأخذ بن عباس بركابه فقال لا تفعل يا بن عم رسول الله فقال هكذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا."

(عبد اللَّه بن العباس،26/4، ط: دارالكتب الإسلامية)

وفي مسنديالإمام أحمد :

"عن أنس، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم أتاه رعل، وذكوان، وعصية، وبنو لحيان فزعموا أنهم قد أسلموا، فاستمدوه على قومهم، فأمدهم نبي الله صلى الله عليه وسلم يومئذ بسبعين من الأنصار - قال أنس: كنا نسميهم في زمانهم القراء كانوا يحطبون بالنهار، ويصلون بالليل - فانطلقوا بهم حتى إذا أتوا بئر معونة، غدروا بهم فقتلوهم. " فقنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا في صلاة الصبح يدعو على هذه الأحياء: رعل، وذكوان، وعصية، وبني لحيان " قال: قال قتادة: وحدثنا أنس: أنهم قرءوا به قرآنا، - وقال ابن جعفر في حديثه: إنا قرأنا بهم قرآنا - " بلغوا عنا قومنا، أنا قد لقينا ربنا، فرضي عنا وأرضانا."

(مسند انس ابنِ مالك رضي الله عنه،ج:19،ص:119،ط:مؤسسة الرسالة)

(٥) وفي إعلام الموقعين لإبنِ قيم : 

"وأول من قام بهذا المنصب الشريف سيد المرسلين وإمام المتقين وخاتم النبيبن عبد الله ورسوله وأمينه على وحيه وسفيره بينه وبين عباده فكان يفتي عن الله بوحيه المبين ."

(‌‌فصل [الأصحاب -رضي الله عنهم, الذين قاموا بالفتوى بعده -صلى الله عليه وسلم،ج:2،ص:17، ط: دار ا بنِ الجوزي)

(٦)و فيه ایضاً:

"والذين حفظت عنهم الفتوى من أصحاب رسول الله ص - مائة ونيف وثلاثون نفسا ما بين رجل وامرأة وكان المكثرون منهم سبعة عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن مسعود وعائشة أم المؤمنين وزيد بن ثابت وعبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر."

(‌‌فصل [الأصحاب -رضي الله عنهم- الذين قاموا بالفتوى بعده -صلى الله عليه وسلم،ج:2،ص:18، ط: دار ا بنِ الجوزي)

(٧)وفي القرآن الحكيم:

"فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ." ﴿النجم: ٣٢﴾

ترجمہ:"سو مت بیان کرو اپنی خوبیاں وہ خوب جانتا ہے اس کو بچ کر چلا۔"(بیان القرآن)

وفي المرقاة المفاتيح:

"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا رأيتم المداحين) أي: المبالغين في المدح متوجهين إليكم طمعا سواء يكون نثرا أو نظما (فاحثوا) : بهمزة وصل وضم مثلثة أي: ارموا (في وجوههم) : وفي نسخة في أفواههم (التراب) : قيل: يؤخذ التراب ويرمى به في وجه المداح عملا بظاهر۔۔۔قال الخطابي: المداحون هم الذين اتخذوا مدح الناس عادة، وجعلوه بضاعة يستأكلون به الممدوح، فأما من مدح الرجل على الفعل الحسن والأمر المحمود، يكون منه ترغيبا له في أمثاله، وتحريضا للناس على الاقتداء في أشباهه فليس بمداح."

)باب حفظ اللسان والغيبة والشتم،ج:7،ص:3031،ط:دارالفكر(

وفي كنزالعمال:

"عن الحسن البصري، أن رجلا لقي النبي صلى الله عليه وسلم، قال: مرحبا بسيدنا، وابن سيدنا، قال فذكره۔۔۔ ويحك قطعت ظهر أخيك، والله لو سمعها ما أفلح أبدا، إذا أثنى أحدكم على أخيه فليقل: إن فلانا، ولا ‌أزكي ‌على ‌الله ‌أحد. "طب" عن أبي بكرة."

(الكتاب الثالث في الأخلاق،ج:3،ص:652 ،ط:مؤسسة الرسالة)

وفي الصحيح المسلم:

"حدثناأبو بكر بن أبي شيبة، ‌ومحمد بن المثنى جميعا عن ابن مهدي (واللفظ لابن المثنى)، قالا: حدثنا ‌عبد الرحمن،عن ‌سفيان ، عن ‌حبيب،عن ‌مجاهد ، عن ‌أبي معمر قال: « قام رجل يثني على أمير من الأمراء،فجعل ‌المقداد يحثي عليه التراب، وقال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نحثي في ‌وجوه ‌المداحين التراب»"

)باب النهي عن المدح إذا كان فيه إفراط،ج:2،ص:228،ط:دارالطباعة العامرة(

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144504101698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں