بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مدرس نصاب پورا کرنے کا پابند ہے/آج کل نصاب کی تعیین نہیں کی جاتی تو کیا اجارہ فاسد ہوجاتا ہے


سوال

مدرسہ کا مدرس کیا نصاب پورا کرنے کا پابند ہے؟اگر ہے تو آج کل اس سلسلے میں کسی بھی طرح کے عقد کی مدرس سے طے ہوتے وقت تعیین نہیں ہوتی،تو کیا اجارہ میں جہالت کی وجہ سے فساد آئےگا؟

جواب

واضح رہے کہ اجیر خاص کے عقد اجارہ میں عمل اور وقت دونوں معقود علیہ میں شامل ہوتے ہیں،البتہ ان دونوں میں سے اصل وقت ہوتا ہے یعنی جائے ملازمت پر حاضر ہونا ،لہذا اگر اجرت کے ساتھ مدتِ ملازمت طے کرلیا جائے تو اجارہ صحیح ہوجاتاہے، تاہم اگر ملازم وقت میں حاضر ہوتا ہے، لیکن اپنے فرائض انجام نہیں دیتا تو وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مدرس کے ساتھ  مدتِ تدریس کے ساتھ ساتھ اجرت بھی طے کی جاتی ہے، تو شرعاً ایسا اجارہ صحیح ہوجاتا ہے، نصاب کے عدمِ تعیین  کی وجہ سے اجارہ فاسد نہیں ہوتا،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب مہتم ِ مدرسہ کسی مدرس کو سال شروع ہونے سے قبل کوئی کتاب تدریس کے لیے حوالہ کرتا ہے تو عرفاً اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ مدرس مقررہ نصاب طلبہ کو پڑھائے گا،  لہذا مدرس کی  ذمہ داری ہے کہ وہ مکمل نصاب پڑھائے، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تاکہ طلبہ  کی تعلیم حرج نہ ہو۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 568) لو استؤجر أستاذ لتعليم علم أو صنعة فإن ذكرت مدة انعقدت الإجارة على المدة حتى أن الأستاذ يستحق الأجرة لكونه حاضرا ومهيأ للتعليم قرأ التلميذ، أو لم يقرأ وإن لم تذكر مدة انعقدت إجارة فاسدة، وعلى هذه الصورة إن قرأ التلميذ فالأستاذ يستحق الأجرة، وإلا، فلا إذا استؤجر أستاذ لتعليم علم كالفقه والنحو والصرف والطب والنجوم واللغة والأدب والخط والحساب، أو أي صنعة فإن ذكرت مدة كالشهر والسنة وذكرت الأجرة أيضا صحت الإجارة وانعقدت على المدة حتى أن الأستاذ يستحق الأجرة لكونه حاضرا ومهيئا للتعليم قرأ التلميذ، أو لم يقرأ (علي أفندي) ؛ لأنه لما بينت في الإجارة الأجرة وعينت المدة انعقدت الإجارة صحيحة ومتى سلم الأستاذ نفسه للتعليم وكان مستعدا للقيام بذلك مدة الإجارة استحق الأجرة؛ لأن الأستاذ قد أصبح أجيرا خاصا لكن ليس للأستاذ الامتناع عن التعليم وإن امتنع فللمستأجر فسخ الإجارة."

(الكتاب الثاني الاجارة،ج:1،ص:654،ط:دار الجيل)

وفيه ايضاً:

"الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة."

(الكتاب الثاني الاجارة،ج:1،ص:458،ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں