بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نکاح کے بعد میاں بیوی بوس و کنار کرسکتے ہیں؟


سوال

 نکاح کے بعد میاں بیوی کے  حدود  کیا ہیں؟ کیا   میاں بیوی بوس و کنار کرسکتے  ہیں؟

جواب

نکاح کے بعد میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کے تمام بدن سے استمتاع جائز ہوجاتا ہے،  البتہ ماہواری کے ایام میں بیوی کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک کپڑے کے بغیر استمتاع  جائز نہیں ہوتا، اور ان ایام میں صحبت(ہمبستری)  بھی جائز نہیں ہوتی، نیز   صحبت کے اصل محل کو چھوڑ کر  دبر ( پچھلی شرمگاہ کے راستہ ) سے شہوت پوری کرنابھی  از روئے شرع حرام ہے، لہذا صورت مسئولہ میں  نكاح كے بعد میاں بیوی بوس و کنار کرسکتے ہیں اگرچہ رخصتی نہ ہوئی ہو۔

سنن أبي داود میں ہے:

" ٣٩٠٤ - حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، وحدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن حماد بن سلمة، عن حكيم الأثرم، عن أبي تميمةعن أبي هريرة، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أتى كاهنا -قال موسى في حديثه:- فصدقه بما يقول، -ثم اتفقا- أو أتى امرأة -قال مسدد: امرأته حائضا أو أتى امرأة- قال مسدد: امرأته في دبرها- فقد برئ مما أنزل الله على محمد"

( كتاب الطب، باب في الكاهن، ٦ / ٤٨، دار الرسالة العالمية )

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو کسی کاہن کے پاس آئے پھر جو وہ کہے اس کی تصدیق کرے، یا ماہواری کی حالت میں بیوی کے پاس آئے (يعنی صحبت کرے) یا اپنی بیوی کے پاس اس کی پچھلی شرمگاہ میں آئے، تو وہ ان چیزوں سے بری ہو گیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں ہیں"۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"النظر إلى فرجها وكان ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - يقول: الأولى أن ينظر إلى فرج امرأته وقت الوقاع ليكون أبلغ في تحصيل معنى اللذة كذا التبيين. قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: سألت أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - عن رجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه لتحرك آلته هل ترى بذلك بأسا؟ قال: لا وأرجو أن يعطى الأجر، كذا في الخلاصة ويجرد زوجته للجماع إذا كان البيت صغيرا مقدار خمسة أذرع أو عشرة قال مجد الأئمة الترجماني وركن الصباغي والحافظ السائلي لا بأس بأن يتجردا في البيت، كذا في القنية."

( كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له وما يحل له مسه وما لا يحل، ٥ / ٣٢٨، ط: دارالفكر) 

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا. وهل يحل النظر ومباشرتها له؟ فيه تردد.

(قوله يعني ما بين سرة وركبة)  فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما."

( كتاب الطهارة، باب الحيض، ١ / ٢٩٢، ط: دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) حرمة الجماع. هكذا في النهاية والكفاية وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج.

فإن جامعها وهو عالم بالتحريم فليس عليه إلا التوبة والاستغفار ويستحب أن يتصدق بدينار أو نصف دينار. كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الطهارة، الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، ١ / ٢٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں