بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مسواک ایک بالشت سے زیادہ ہو تو اس پر شیطان بیٹھتا ہے؟ / مسواک کی سنت مقدار


سوال

مسواک کی مقدار کتنی ہے اور لمبائی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اگر ایک بالشت سے زیادہ ہو تو اس پر شیطان بیٹھتا ہے اس کی وضاحت فرما دیں، نیز  مسواک کی مقدار کے حوالاجات بھی  بیان کردیں۔

جواب

مسواک کی مقدار کے بارے میں فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت، اور چوڑائی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو، پھر جس قدر چھوٹی ہوکر استعمال کے قابل رہے ، استعمال کی جاسکتی ہے۔

جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) ندب إمساكه (بيمناه) وكونه لينا، مستويا بلا عقد، في غلظ الخنصر وطول شبر.

وقال عليه في الرد: (قوله: في غلظ الخنصر) كذا في المعراج، وفي الفتح الأصبع (قوله: وطول شبر) الظاهر أنه في ابتداء استعماله، فلا يضر نقصه بعد ذلك بالقطع منه لتسويته، تأمل، وهل المراد شبر المستعمل أو المعتاد؟ الظاهر الثاني لأنه محمل الإطلاق غالبا."

(كتاب الطهارة، ١/ ١١٤، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"واستحب أن يكون لينا من غير عقد في غلظ الأصبع، وطول شبر من الأشجار المرة المعروفة."

(كتاب الطهارة، باب أركان الطهارة، ١/ ٢١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها السواك) وينبغي أن يكون السواك من أشجار مرة؛ لأنه يطيب نكهة الفم ويشد الأسنان ويقوي المعدة وليكن رطبا في غلظ الخنصر وطول الشبر."

(كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء، ١ /٧، ط: رشيدية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال علماؤنا: ‌ينبغي ‌أن ‌يكون ‌السواك من الأشجار المرة في غلظ الخنصر وطول الشبر."

(كتاب الطهارة، باب السواك، ١/ ٣٩٤، ط: دارالفكر)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"مسواک ایک بالشت سے زائد نہ رکھی جائے،ابتداءً ایک بالشت ہوتوبہتر ہے،کم میں بھی مضائقہ نہیں،پھر جس قدر چھوٹی ہوکر استعمال کے قابل رہے استعمال کی جائے۔"

(کتاب الطہارۃ، باب الوضوء،ج:5،ص:47،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

باقی مسواک کی مقدار کے بارے میں فقہ کی بعض کتابوں میں جو مذکور ہے کہ مسواک اگر ایک بالشت سے زیادہ ہو، تو اس پر شیطان بیٹھتا ہے، یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اسے نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان نہیں کرنا چاہیے،  زیادہ سے زیادہ یہ کسی بزرگ کا قول ہوسکتا ہے جو ممکن ہے انھوں نے متصوف قسم کے لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا ہو، تاکہ وہ مسواک میں کوئی ایسا مبالغہ نہ کریں  کہ جس کی وجہ سے سنت کا مذاق بن جائے، اور وہ اعتدال میں رہ کر سنت پر عمل کریں، پھر اسی قول کو بعض فقہاء نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کردیا۔ 

تحفۃ النساک فی فضل السواک میں ہے:

"وينبغي أن يكون السواك طول شبر، فلو طال عن الشبر فمركب للشيطان، خاليا من العقد والإعوجاج، ولا يقبض السواك قبضا، فإنه يورث الباسور. ولا يمصه فإنه يورث العمى. ولا يستاك وهو مضطجع، فإنه يورث كبر الطحال. ولا يضع السواك بل ينصبه لأن خطر الجنون."

قال عليه في حاشيته الشيخ عبدالفتاح أبو غدة رحمه الله:

"قلتُ: هذا الذي ذكروه هنا، ليس له دليل شرعي، ولا مستند نقلي أو عقلي! قاله بعض الفقهاء من باب التنفير والتكريه، وَلَيتَهم لم يذكروه، فإن المؤمن يفعل ذلك اتباعا  واستنانا بسنة الرسول الكريم ﷺ، وهي كافية للتحبيب والترغيب. ولو قالوا: لم يَرد أن النبي ﷺ فعَلَه، لكان أولى مما ذكروه من الأمراض والأعراض، التي لا سند لها ولاقبول، ولكن جردت سنة الله في العلماء أن في كل صنف منهم متساهلين! فهذا من تساهلات الفقهاء! فلا تغتر به."

(الباب الثاني في كيفيته، ص: ٥٥، ط: دار البشائر الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں