لڑکی اور لڑکے کا نکاح ان کے والدین کی رضامندی سے کرایا گیا ،لڑکی کی عمر نکاح کے وقت 15 سال تھی، اور لڑکے کی عمر 28 سال تھی، 2018ء میں نےنکاح ہوا ،نکاح کے وقت لڑکی کی رضامندی شامل تھی، والد ہی نے کی نکاح پڑھایا،رخصتی نہیں ہوئی تھی، نہ حق مہر ادا ہوا، نہ ہی ازدواجی رشتہ قائم ہوا، 2022 ءمیں لڑکی نے کہا کہ میں اس آدمی سےشادی نہیں کروں گی، چنانچہ عدالت میں خلع کے لیے درخواست دائر کی گئی ،اور عدالت نے 2022ء میں خلع کا فیصلہ کر دیا ،مزید تفصیل کاغذات میں موجود ہے، لڑکے کا کہنا ہے کہ میں یہ فیصلہ نہیں مانتا مجھے فتوی چاہیے ،گزارش ہے کہ اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔
وضاحت ہمارے ہاں یہ جو مجلس ہوتی ہے اس کو منگنی کی مجلس کہا جاتا ہے ،اس مجلس میں باقاعدہ نکاح پڑھایا جاتا ہے ،گواہ بھی موجود ہوتے ہیں، اور مہر بھی طے کیاجاتا ہے ،اور رخصتی کے وقت دوبارہ نکاح نہیں ہوتا، البتہ نکاح نامہ کا فارم صرف پر کروایا جاتا ہے باقاعدہ دوسرا نکاح نہیں ہوتا ۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق مذکورہ لڑکی کا نکاح اس کے والد نے 15 سالہ کی عمر میں گواہوں کی موجودگی میں مہر طے کرکے پڑھایا تھا،اس سے نکاح منعقد ہو گیا تھا ،مذکورہ نکاح کو منگنی کا نام دینا شرعاً درست نہیں ہوگا ،پس مذکورہ نکاح کے بعد 2022 ءمیں مذکورہ لڑکی کا عدالت سے خلع کے لیے رجوع کر نا، اور یکطرفہ بنیاد پر مسلم فیملی لا ءایکٹ 1964 کی دفعہ 10 ذیلی دفعہ 4کے تحت خلع حاصل کرنا شرعاً معتبر نہیں ہوگا ؛کیونکہ خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے بیوی کی جانب سے اپنے مہر کے عوض شوہر سے خلع کا مطالبہ کرنا، اور شوہر کا اس مطالبہ کو قبول کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے ،یکطرفہ طور پر خلع کے فیصلہ سے شرعاً نکاح ختم نہیں ہوتا،اور خاتون کے لیے کسی اور سے نکاح کرناجائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
" وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع،ج3ص441،ط: سعید)
مبسوط سرخسی میں ہے:
" (قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع،ج6،ص173،ط:دارالمعرفة بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے :
"ومعلوم أن المرأة لا تملك الطلاق، بل هو ملك الزوج لا ملك المرأة، فإنما يقع بقول الزوج وهو قوله: خالعتك فكان ذلك منه تطليقا إلا أنه علقه بالشرط، والطلاق يحتمل التعليق بالشرط، والإضافة إلى الوقت لا تحتمل الرجوع والفسخ ولا يتقيد بالمجلس ويقف الغائب عن المجلس ولا يحتمل شرط الخيار، بل يبطل الشرط ويصح الطلاق.
وأما في جانبها فإنه معاوضة المال؛ لأنه تمليك المال بعوض، وهذا معنى معاوضة المال فتراعى فيه أحكام معاوضة المال كالبيع ونحوه وما ذكرنا من أحكامها، إلا أن أبا يوسف ومحمدا يقولان في مسألة الخيار: إن الخيار إنما شرع للفسخ، والخلع لا يحتمل الفسخ؛ لأنه طلاق عندنا، وجواب أبي حنيفة عن هذا أن يحمل الخيار في منع انعقاد العقد في حق الحكم على أصل أصحابنا فلم يكن العقد منعقدا في حق الحكم للحال، بل هو موقوف في علمنا إلى وقت سقوط الخيار فحينئذ يعلم على ما عرف في مسائل البيوع والله الموفق.وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة،ج:3،ص:145،ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)
تبیین الحقائق میں ہے:
"ولابد من قبولھا لانہ عقد معاوضۃ او تعلیق بشرط فلاتنعقد المعاوضۃ بدون القبول۔۔۔۔اذ لاولایۃ لاحدھما فی الزام صاحبہ بدون رضاہ."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع،ج2،ص271،ط:رشیدیہ)
ہدایہ میں ہے:
"قال: "النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي" لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة."
(کتاب النکاح،ج1،ص185،دار احياء التراث العربي، بيروت)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
"جواب .... اگر منگنی کی دعوت کے موقع پر باقاعدہ نکاح کا ایجاب و قبول کرایا جاتا ہے اور اس پر گواہ بھی مقرر کئے جاتے ہیں تو یه منگنی در حقیقت نکاح ہے، اور شادی کے معنی رخصتی کے ہوں گے۔ اس لئے لڑکا اور لڑ کی منگنی والے ایجاب وقبول کے بعد شر عامیاں بیوی ہوں گے، اور ان پر میاں بیوی کے تمام احکام جاری ہوں گئے۔"
(کتاب النکاح، منگنی، ج:6، ص:87، ط: مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن