بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مدرسہ کا مصلی شرعی مسجد کے حکم میں ہے؟


سوال

مسئلہ نمبر 1 ۔ میرے والد صاحب نے سن 1965 میں گولیمار ( گلبہار) بازار چار سو کوارٹر میں اپنے ذاتی مکان میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا،مذکورہ مدرسہ کی دو منزلہ تعمیرات مدرسہ کے نام پر جمع شدہ چندہ سے کی گئی تھیں، جو تاحال قائم ہے،  او مذکورہ مکان باقاعدہ  مدرسہ کے لیے وقف کرکے سرکاری دستاویزات میں رجسٹرڈ بھی کرا دیا تھا، پھر سن 1990 میں  حسب ضرورت  مدرسہ کا ایک کمرہ جس میں سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں، نماز کے لیے  مختص کر کے نماز پنجگا نہ اور جمعہ شروع کر دیا تھا، جس کے لیے ایک امام کا تقرر بھی کیا گیا تھا، جبکہ مذکورہ کمرے میں حفظ کی کلاسیں حسب سابق جاری رکھی گئی ، اور کمرہ کے اوپر اور دائیں بائیں  مدرسہ  ہے، اور ایک جانب دوکانیں ہیں۔

آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ جس جگہ نماز ہو رہی ہے وہ جگہ شرعی مسجد  شمار ہوگی یا  نہیں ؟ کیونکہ ہم مدرسہ کو شہید کر کے اس کی تعمیر  نو کرنا چاہتے ہیں اور مسجد کی جگہ کو بڑھانا چاہتے ہیں، اور اس کے بیسمنٹ میں وضو خانہ بنانا چاہتے ہیں۔

نیز والد صاحب وفات پا چکے ہیں، کیا موجودہ مہتمم اس مدرسہ کی وقف جگہ کو شرعی مسجد بنا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ جگہ چونکہ سائل کے والد نے باضابطہ مدرسہ کے لیے وقف کی تھی،  اور اس پر تعمیرات بھی مدرسہ کے نام پر جمع کردہ فنڈز سے کی تھی، لہذا مذکورہ جگہ مدرسہ کی شرعی حیثیت مدرسہ کی ہوگی، اور جس جگہ 1990 سے نماز ادا کی جا رہی ہے، اس کی حیثیت مدرسہ کے مصلے کی ہوگی، یعنی مذکورہ جگہ مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہوگی،  وہاں وہ اعمال  جو مسجد شرعی کے ساتھ خاص ہیں، جیسے اعتکاف کرنا،  پاکی ناپاکی کے احکام جاری نہ ہوں گے، لہذا تعمیر نو میں اگر مصلے کے بیسمنٹ میں وضو خانہ بنانے کا ارادہ ہو تو ایسا کرنا شرعا جائز ہوگا۔

نیز واقف کے گزر جانے کے بعد وقف کی حیثیت میں کسی قسم  کے رد و بدل کا کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة ... أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف، ٤ / ٤٤٥، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية."

(كتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ٢ / ٣٦٢، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"قال في البحر: ‌وحاصله ‌أن ‌شرط ‌كونه ‌مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه."

(كتاب الوقف، ٤ / ٣٥٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں