ایک مدرسہ ہے جس کے طلباءِ کرام کے کھانے کےلیے محلہ سے وظیفے (روٹی سالن اور ناشتہ) اکٹھا کرکے کھلایا جاتا ہے ، تعداد کم ہے جن سے کھانا بچ جاتا ہے اور خشک روٹی بھی بیچ دی جاتی ہے،علاج معالجہ کےلیے محلے کے ڈاکٹر حضرات طلباء کےساتھ شفقت فرماتے ہیں ،دو اساتذہ ہیں، جن کی تنخواہوں کےلیے زیر تعلیم مقامی بچوں سے ماہانہ پیسے لیےجاتے ہیں، تو ایسے مدرسہ کےلیے قربانی کی کھالیں زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنا کیسا ہے ؟جب کہ مدرسہ مکمل تعمیر شدہ ہے، اہلِ علاقہ نے تعمیر کردیا تھا، ساتھ ملحقہ مسجد میں اہلِ علاقہ خود تعمیر کررہے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مدرسہ میں زیر ِتعلیم طلبہ بالغ مستحق زکوۃ ہوں، یا مستحق زکوۃ والدین کے نابالغ بچےہوں، تو اس صورت میں مدرسہ کے لیے طلبہ کی طرف سے وکیل بن کر زکات کی رقم، قربانی کی کھالیں وغیرہ وصول کرنا جائز ہے،زکاة وغیرہ مدرسہ میں دینا جائز ہی نہیں بلکہ بہتر ہے کہ اس میں غریب طلبہ کی امداد کے ساتھ علوم دینیہ کے حصول پر تعاون بھی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي."
(كتاب الزكوة،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:187،ط:رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144405100548
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن