بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مشینی بلاک اور بھٹی میں پکی اینٹ کا حکم قبر بنانے میں ایک ہے؟


سوال

فتویٰ نمبر  144107200534 کے سوال کے دوسرے جزء میں صورتِ مسئولہ سیمنٹ سے بنے بلاکوں سے متعلق تھی، جب کہ جواب آگ پر پکی ہوئی اینٹوں سے متعلق دیا گیا ہے، اور سیمنٹ کے بلاکوں کا کوئی حکم بیان نہیں کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ سیمنٹ کے بلاک، حدیث میں ذکر کردہ لبن (کچی اینٹ) کے حکم میں ہیں؟ یا شامی کی ذکر کردہ عبارت میں آجر(پکی اینٹ) کے حکم میں ہیں؟

جب کہ آجر کی صفت مطبوخ آئی ہے، اور سیمنٹ کا بلاک پکا ہوا نہیں ہوتا؟

ذکر کردہ وضاحت کے ساتھ گزشتہ فتویٰ کے دوسرے جزء کا جواب دوبارہ مطلوب ہے۔

اسی دوسرے جزء میں قبر میں آگ نہ رکھنے کے حوالہ سے حدیث کا سوال کیا تھا، جواب میں فتاویٰ رحیمیہ کا ایک حوالہ دیا ہے، جس سے بھی حدیث کی طرف اشارہ مل رہا ہے، لیکن جواب میں اصل حدیث سے متعلق کوئی بات ذکر نہیں کی گئی۔ اگر ایسی کوئی حدیث موجود ہے تو باحوالہ معہ حکم بتادیجیے!

جواب

موجودہ دور میں مارکیٹ میں دست یاب مشینی بلاک  کچی اینٹ کے حکم میں ہیں، بھٹی میں پکا کر تیار کردہ پکی اینٹ کے حکم میں نہیں۔

احسن الفتاوی میں ہے:

’’سوال: قبر میں بوقتِ ضرورت سیمنٹ یا سیمنٹ اور بجری کی بنی ہوئی اینٹ یا پتھر کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ سیمنٹ کی اینٹ اور مٹی کی پختہ اینٹ میں کچھ فرق ہے یا کہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

قال شارح التنوير رحمه الله تعالي: (وَلَا بَأْسَ بِاِتِّخَاذِ تَابُوتٍ) وَلَوْ مِنْ حَجَرٍ أَوْ حَدِيدٍ (لَهُ عِنْدَ الْحَاجَةِ) كَرَخَاوَةِ الْأَرْضِ.

و قال ابن العابدين رحمه الله تعالي:

قَوْلُهُ: وَلَا بَأْسَ بِاِتِّخَاذِ تَابُوتٍ إلَخْ) أَيْ يُرَخَّصُ ذَلِكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ، وَإِلَّا كُرِهَ كَمَا قَدَّمْنَاهُ آنِفًا. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: نَقَلَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْإِمَامِ ابْنِ الْفَضْلِ أَنَّهُ جَوَّزَهُ فِي أَرَاضِيِهِمْ لِرَخَاوَتِهَا: وَقَالَ: لَكِنْ يَنْبَغِي أَنْ يُفْرَشَ فِيهِ التُّرَابُ، وَتُطَيَّنَ الطَّبَقَةُ الْعُلْيَا مِمَّا يَلِي الْمَيِّتَ، وَيُجْعَلُ اللَّبِنُ الْخَفِيفُ عَلَى يَمِينِ الْمَيِّتِ وَيَسَارِهِ لِيَصِيرَ بِمَنْزِلَةِ اللَّحْدِ، وَالْمُرَادُ بِقَوْلِهِ يَنْبَغِي يُسَنُّ كَمَا أَفْصَحَ بِهِ فَخْرُ الْإِسْلَامِ وَغَيْرُهُ، بَلْ فِي الْيَنَابِيعِ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُفْرَشَ فِي الْقَبْرِ التُّرَابُ، ثُمَّ لَمْ يَتَعَقَّبُوا الرُّخْصَةَ فِي اتِّخَاذِهِ مِنْ حَدِيدٍ بِشَيْءٍ، وَلَا شَكَّ فِي كَرَاهَتِهِ كَمَا هُوَ ظَاهِرُ الْوَجْهِ اهـ أَيْ لِأَنَّهُ لَا يُعْمَلُ إلَّا بِالنَّارِ فَيَكُونُ كَالْآجُرِّ الْمَطْبُوخِ بِهَا كَمَا يَأْتِي". ( شامی، 2 / 234 - 235، ط : دار الفکر)

وفي شرح التنوير:

(ويسوي اللبن عليه والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب لو حوله، أما فوقه فلا يكره. ابن ملك... (وجاز) ذلك حوله (بأرض رخوة) كالتابوت". ( 1 / 123، ط: دار الكتب العلمية)

و في الشامية:

(قَوْلُهُ: لَوْ حَوْلَهُ إلَخْ) قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَكَرِهُوا الْآجُرَّ وَأَلْوَاحَ الْخَشَبِ. وَقَالَ الْإِمَامُ التُّمُرْتَاشِيُّ: هَذَا إذَا كَانَ حَوْلَ الْمَيِّتِ، فَلَوْ فَوْقَهُ لَا يُكْرَهُ لِأَنَّهُ يَكُونُ عِصْمَةً مِنْ السَّبُعِ. وَقَالَ مَشَايِخُ بُخَارَى: لَا يُكْرَهُ الْآجُرُّ فِي بَلْدَتِنَا لِلْحَاجَةِ إلَيْهِ لِضَعْفِ الْأَرَاضِي (قَوْلُهُ: عَدَدُ لَبِنَاتِ إلَخْ) نَقَلَهُ أَيْضًا فِي الْأَحْكَامِ عَنْ الشُّمُنِّيِّ عَنْ شَرْحِ مُسْلِمٍ بِلَفْظِ يُقَالُ عَدَدُ إلَخْ (قَوْلُهُ: وَجَازَ ذَلِكَ) أَيْ الْآجُرُّ وَالْخَشَبُ. ( رد المحتار، 2 / 236، ط: دار الفکر)

و في العلائية:

(وَلَا يُجَصَّصُ) لِلنَّهْيِ عَنْهُ (وَلَا يُطَيَّنُ، وَلَا يُرْفَعُ عَلَيْهِ بِنَاءٌ. وَقِيلَ: لَا بَأْسَ بِهِ، وَهُوَ الْمُخْتَارُ)

و في الشامية:

(قَوْلُهُ: وَقِيلَ: لَا بَأْسَ بِهِ إلَخْ) الْمُنَاسِبُ ذِكْرُهُ عَقِبَ قَوْلِهِ: وَلَا يُطَيَّنُ لِأَنَّ عِبَارَةَ السِّرَاجِيَّةِ كَمَا نَقَلَهُ الرَّحْمَتِيُّ ذَكَرَ فِي تَجْرِيدِ أَبِي الْفَضْلِ أَنَّ تَطْيِينَ الْقُبُورِ مَكْرُوهٌ وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ اهـ وَعَزَاهُ إلَيْهَا الْمُصَنِّفُ فِي الْمِنَحِ أَيْضًا. وَأَمَّا الْبِنَاءُ عَلَيْهِ فَلَمْ أَرَ مَنْ اخْتَارَ جَوَازَهُ. وَفِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ عَنْ مُنْيَةِ الْمُفْتِي: الْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا يُكْرَهُ التَّطْيِينُ. وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ: يُكْرَهُ أَنْ يَبْنِيَ عَلَيْهِ بِنَاءً مِنْ بَيْتٍ أَوْ قُبَّةٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ، لِمَا رَوَى جَابِرٌ «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَجْصِيصِ الْقُبُورِ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا» رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَغَيْرُهُ اهـ نَعَمْ فِي الْإِمْدَادِ عَنْ الْكُبْرَى: وَالْيَوْمَ اعْتَادُوا التَّسْنِيمَ بِاللَّبِنِ صِيَانَةً لِلْقَبْرِ عَنْ النَّبْشِ، وَرَأَوْا ذَلِكَ حَسَنًا. وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ» . اهـ". ( شامی، 2 / 237، ط دار الفکر)

عبارتِ  بالا سے امور ذیل ثابت ہوئے:

1۔ قبر کے اندر میت کے اطراف میں بلا ضرورت لکڑی کے تختے،  پتھر،  سیمنٹ کی اینٹ، لوہا، اور بھٹی میں پکی ہوئی اینٹ لگانا مکروہِ تحریمی ہے۔

2۔ اگر زمین بہت نرم ہو، یا اس میں نمی ہو، اور قبر  گرنے کا خطرہ ہو تو بقدرِ ضرورت مذکورہ اشیاء لگانے کی اجازت ہوگی، اگر لکڑی پتھر یا سیمنٹ کی اینٹ سے ضرورت پوری ہوجائے،  تو بھٹی کی پختہ اینٹ اور لوہے سے احتراز کیا جائے، اس لیے کہ اس میں آگ کا اثر ہے،  پتھر اور سیمنٹ کی اینٹ میں یہ قباحت نہیں، ایسی ضرورت کے وقت لکڑی،  پتھر اور لوہے کے تابوت میں رکھ کر دفن کرنے کی بھی گنجائش ہے، البتہ لوہے کے تابوت سے حتی الامکان احتراز کیا جائے،  ہر قسم کے تابوت میں بہتر یہ ہے کہ نیچے مٹی بچھالی جائے،  اور میت کی دونوں طرف کچی اینٹیں لگالی جائیں، اور ڈھکنے کے اندر کی طرف مٹی سے لیپ دی جائے۔ 

3۔ میت کے اوپر کی طرف یعنی قبر کا شق پاٹنے میں بلا ضرورت بھی  لکڑی،  پتھر، سیمنٹ کی سلیپ اور  لوہا وغیرہ لگانا جائز ہے۔

4۔ اوپر سے قبر کو مٹی سے لیپنے کی گنجائش ہے، مگر احتراز بہتر ہے۔

5۔ قبر کے اوپر سیمنٹ کا پلستر، اور کسی بھی قسم کی اینٹ لگانا نا جائز ہے، پلستر اور بناء  کی ممانعت صراحتاً  حدیث میں وارد ہے، اینٹ لگانا بھی بناء میں داخل ہے، جو بغرضِ زینت حرام ہے، اور بغرضِ استحکام مکروہِ تحریمی ہے، جو  گناہ میں حرام ہی کے برابر ہے،  البتہ درندوں کے خوف سے کچی اینٹ لگانے کی گنجائش ہے‘‘۔ ( باب الجنائز، 4 / 197 - 199، بعنوان: قبر میں اینٹ پتھر لوہا وغیرہ لگانا)

علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے قبر میں پکی اینٹ کے استعمال کے مکروہ ہونے کی وجہ بروایت ابراہیم نخعی (تابعی)  رحمہ اللہ نقل کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قبر  میں پکی اینٹ کے استعمال کو ناپسند کرتے تھے، جب کہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنی میں اس ناپسندیدگی کی دو وجہیں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ پکی اینٹ کا استعمال مال داروں اور متکبرین کا وطیرہ ہے، جب کہ دوسری وجہ یہ کہ نیک فالی کے طور پر آگ سے بنی کوئی چیز قبر میں استعمال نہ کی جائے، تاکہ مردہ کو بھی آگ نہ پکڑے۔

بدائع الصنائع" للكاساني   میں ہے:

"ويكره الآجر ودفوف الخشب، لما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: كانوا يستحبون اللبن والقصب على القبور، وكانوا يكرهون الآجر" انتهى. ( 1 / 318)

وفي "المغني" لابن قدامة:

"ولايدخل القبر آجرًا، ولا خشبًا، ولا شيئًا مسته النار.

ويكره الآجر؛ لأنه من بناء المترفين، وسائر ما مسته النار، تفاؤلاً بأن لاتمسه النار" انتهى". (3/ 435)

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اثر کے علاوہ کوئی صریح حدیث اس کی ممانعت کے حوالے سے نہیں ملی،  یہی وجہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر  پکی اینٹ کے استعمال کی بھی تمام فقہاءِ کرام نے اجازت دی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200914

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں