بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیاہونٹ ٹنٹ Lip tinting کا استعمال کرنا شرعاً جائز ہے؟


سوال

ہونٹ ٹنٹ(Lip tinting) کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟

جواب

ہونٹوں کو رنگنے کے لیے استعمال کیا جانے والا مائع یا جیل نما ایک  کاسمیٹک پروڈکٹ "ہونٹ ٹنٹ"(lip tinting) جس کے رنگ کا داغ لپ اسٹک سے زیادہ دیر تک رہتا ہے،اس کے اجزاء میں اگر ناپاک چیز شامل ہو تو عورتوں کے لیے اس کا لگانا جائز  نہیں ہے، اوراگر ناپاک چیز شامل نہ ہو تو عورتوں کے لیےاس کا لگانا جائز ہے۔باقی مذکورہ "ہونٹ ٹنٹ"(lip tinting) کی ماہیت ایسی ہو کہ وہ جلد تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ بنے، تو اس کو اتارے بغیر وضو  اور غسل صحیح نہیں ہوگا،اوراگر"ہونٹ ٹنٹ"(lip tinting)کی ماہیت ایسی ہو کہ جلد تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنے ، تو اسے اتارے بغیر بھی وضو  اور غسل درست ہوجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا الزيت لو اختلط مع ودك الميتة أو الخنزير لا ينتفع به على كل حال إلا إذا غلب الزيت، لكن لا يحل أكله بل يستصبح به أو يبيعه مع بيان عيبه أو يدبغ به الجلود ويغسلها لأن المغلوب تبع للغالب ولا حكم للتبع".

(كتاب الخنثى،مسائل شتى،ج:6۔ص:736،ط: سعيد)

وفيه ايضاً:

.ولا یمنع الطہارة ونیم وحناء ودرن ۔۔۔۔۔وقیل: إن صلبًا منع وہو الأصح".

"(قوله: إن ‌صلبا) بضم الصاد المهملة وسكون اللام وهو الشديد حلية: أي إن كان ‌ممضوغا مضغا متأكدا، بحيث تداخلت أجزاؤه وصار له لزوجة وعلاكة كالعجين شرح المنية؛ لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج ".

(كتاب الطهارة،فرض الغسل،ج:1،ص154،ط:سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وكذلك الزيت إذا وقع فيه ودك الميت، فإن كان الزيت غالباً جاز بيعه، وإن كان الودك غالباً لم يجز، والمراد من الانتفاع حال عليه الحلال الانتفاع في غير الأبدان، وأما في الأبدان فلا يجوز الانتفاع به".

(كتاب البيع،الفصل السادس:فيما يجوز ومالايجوزبيعه،ج:6،ص:350،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لو كان عليه جلد سمك او خبز ممضوغ قدجف فتوضا ولم يصل الماء إلى ماتحته لم يجز لأن التحرز عنه ممكن، كذا فى المحيط ".

كتاب الطهارة،الفصل الأول في فرائض الوضوء،ج:1،ص:5،ط: دار الفكر)

شرعی غذائی احکام میں ہے:

"اگر مرکب میں نجس شامل ہے تو پورا مرکب نجس ہے اور اس کا خوردنی استعمال جائز نہیں ۔اگر نجاست مغلوب ہے تو اس سے انتفاع جائز ہے ،مگر بدن پر اس کا استعمال جائز نہیں ہے(ص:122)".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں