بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا لعان طلاق کے بعد بھی ہوسکتا ہے


سوال

کیا لعان طلاق دینے کے بعد بھی ہو سکتا ہے اور جو بچہ ہوا ہو گا ،اس کے والد کا نام شناختی کارڈ میں کون سا استعمال ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ لعان کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میان بیوی کے درمیان نکاح صحیح ہوا ہو اور نکاح بھی برقرار ہو،البتہ طلاق رجعی دینے کی صورت میں عدت کے دوران بھی لعان ہوسکتا ہے،لیکن اگر طلاق بائن دی ہو،خواہ ایک ہی کیوں نہ ہو یا نکاح ِصحیح نہ ہوا ہو تو شرعا لعان صحیح نہیں ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے بیوی کو طلاق رجعی دی اور عدت مکمل نہ ہوئی ہو تو لعان ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ،لعان ہونے کی صورت میں جب شوہر بچہ کی نفی کرے اور قاضی لعان کی شرائط کے مطابق  نسب کی نفی کا فیصلہ کردے تو بچہ کا نسب ماں سے ثابت ہوگا اور ایسی صورت میں شناختی کارڈ میں والد کا نام نہیں لکھا جائے گا؛بلکہ سرپرست کی حیثیت سے ماں کا نام لکھا جاسکتا ہے۔

اور اگر طلاق بائن کے بعد لعان کرے تو وہ لعان معتبر نہیں  اورطلاق کے بعد سے دو سال   یا اس کے اندر اندر بچہ پیدا ہوا ہوتو بچہ کانسب باپ سے ہی ثابت ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرطه قيام الزوجية وكون النكاح صحيحا) لا فاسدا  .

(قوله: وشرطه قيام الزوجية) فلا لعان بقذف المنكوحة فاسدا، أو المبانة ولو بواحدة، بخلاف المطلقة رجعية، ولا بقذف زوجته الميتة."

(كتاب الطلاق،باب اللعان،3/ 483،ط:سعید)

دوسری جگہ فتاوی شامی میں ہے:

"أكثر مدة الحمل سنتان) لخبر عائشة - رضي الله عنها - كما مر في الرضاع، وعند الأئمة الثلاثة أربع سنين (وأقلها ستة أشهر) إجماعا (فيثبت نسب) ولد (معتدة الرجعي) ولو بالأشهر لإياسها بدائع، وفاسد النكاح في ذلك كصحيحه قهستاني. (وإن ولدت لأكثر من سنتين) ولو لعشرين سنة فأكثر لاحتمال امتداد طهرها وعلوقها في العدة (ما لم تقر بمضي العدة) والمدة تحتمله (وكانت) الولادة (رجعة) لو (في الأكثر منهما) أو لتمامهما لعلوقها في العدة (لا في الأقل) للشك وإن ثبت نسبه (كما) يثبت بلا دعوة احتياطا (في مبتوتة جاءت به لأقل منهما) من وقت الطلاق لجواز وجوده وقته ولم تقر بمضيها كما مر (ولو لتمامها لا) يثبت النسب، وقيل يثبت لتصور العلوق في حال الطلاق؛ وزعم في الجوهرة أنه الصواب...."

(باب العدة،فصل في ثبوت النسب،3/ 540،ط:سعید)

صحیح بخاری میں ہے:

"الولد للفراش وللعاهر الحجر".

(كتاب الفرائض، ص/999، ج/2، ط/قدیمی)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وبعض أهل المدينة احتجوا بقوله " الولد الفراش " أن الرجل إذا نفى ولد امرأته لم ينتف به ولم يلاعن به قالوا لأن الفراش يوجب حق الولد في إثبات نسبه من الزوج والمرأة فليس لهما إخراجه منه بلعان ولا غيره وقال جماهير الفقهاء من التابعين ومن بعدهم منهم الأئمة الأربعة وأصحابهم إذا نفى الرجل ولد امرأته يلاعن وينتفى نسبه منه ويلزم أمه".

(باب تفسیر المشبھات، ص:170، ج:11، ط:دار احیاء التراث العربی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط."

(الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، کتاب الطلاق، ص:536، ج:1، ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں