بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کنڈا مافیہ کو بل دے کر کنڈے کی بجلی استعمال کرنا جائز ہے؟


سوال

ہمارے محلےمیں ایک آدمی    کنڈے کی بجلی چلارہاہے اور اس کے عوض میں وہ ہم سے بل لےرہاہے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے کنڈے کی  بجلی استعمال کرنا جائز ہے یانہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ کنڈے(چوری) کی بجلی کااستعمال کرنا شرعاً بالکل جائز نہیں ہے،یہ بہت بڑاگناہ ہے؛اس لیے کہ حکومت کی طرف سے بل کے عوض فراہم کردہ بجلی پوری قوم کی مشترکہ امانت ہے،لہذاکنڈے(چوری) کی بجلی کااستعمال کرنا  اجتماعی اور مشترکہ چیز کی چوری کرنا ہے،اور اجتماعی چیز کی چوری کا گناہ بھی فرد کی چوری سے زیادہ ہے؛کیوں کہ اس سے دیگر لوگوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں،چنانچہ  حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی  تھانوی ۔رحمۃاللہ علیہ۔لکھتے ہیں:

"اسلام میں جس طرح شخصی املاک کی چوری ناجائز ہے، اسی طرح گورنمنٹ کی املاک بجلی وغیرہ کی چوری بھی ناجائز ہے ،اس لیے  جس قدر بجلی کی چوری کی جائے گی، اس کا ضمان واجب ہوگا"

(امدادالفتاوی،4/147،، سوال: 18، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)

نیزچوری کی بجلی کا علم رکھنے کے باوجود کنڈے کی بجلی استعمال کرناخود ایک مستقل گناہ ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص کسی مسروقہ ( چوری شدہ) چیز کو خریدے حال آں کہ وہ جانتا ہو کہ یہ چیز چوری کی ہے تو وہ عار اور گناہ میں اس چور کے ساتھ شریک ہو گیا۔بہرحال مالک کے کہنے پر کنڈے کی بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر سائل اب تک کنڈے کی بجلی استعمال کرتا رہا ہےتوسائل کو چاہیے کہ  وہ اپنےاس عمل سے فورا اجتناب کرکے اس پر خوب توبہ واستغفار کرے اوراب تک چوری کی جتنی بجلی استعمال كی ہےتو چوں کہ اس کا بل سرکار کو دینے کے بجائے کنڈا مافیہ کودیا ہے،اس لیے استعمال کردہ بجلی کا محتاط اندازہ کرکے  متعلقہ محکمے میں بل جمع کرائے ،اور آئندہ اس سے مکمل طور پر اجتناب کرے،نیز بجلی چور  سے رقم کی واپسی کامطالبہ کرکے رقم لے کر خود محکمہ میں جمع کروادیں۔

المستدرک للحاکم میں ہے:

"عن أبي هریرة عن النبي ﷺ أنه قال: من اشتریٰ سرقةً و هو یعلم أنه سرقة فقد شرک في عارها و إثمها".

(ج:3، ص:852، رقم الحدیث:2253، ط: نزار مصطفی الباز بیروت)

روح البیان میں ہے:

"والثالث ‌فيما ‌بينه ‌وبين ‌عباد ‌الله ‌وهو ‌ان ‌يغصب ‌أموالهم ‌او ‌يضربهم او يشتمهم او يقتلهم فان التوبة لا تكفيه الا ان يرضى عنه خصمه او يجتهد في الأعمال الصالحة حتى يوفق الله بينهما يوم القيامة فانه إذا تاب العبد وكان عليه حقوق العباد فعليه ان يردها الى أربابها."

(سورة البقرة الأية: 180، 1/ 286، ط: دار الفكر - بيروت )

فتاوی شامی میں ہے :

"كتاب السرقة (هي) لغة أخذ الشيء من الغير خفية.

قال القهستاني: وهي نوعان؛ لأنه إما أن يكون ضررها بذي المال أو به وبعامة المسلمين، فالأول يسمى بالسرقة الصغرى والثاني بالكبرى، بين حكمها في الآخر؛ لأنها أقل وقوعا وقد اشتركا في التعريف وأكثر الشروط اهـ أي؛ لأن المعتبر في كل منهما أخذ المال خفية، لكن الخفية في الصغرى هي الخفية عن غين المالك أو من يقوم مقامه كالمودع والمستعير. وفي الكبرى عن عين الإمام الملتزم حفظ طرق المسلمين وبلادهم كما في الفتح."

(کتاب السرقة، 4/ 82، ط: سعید)

وفيها أيضا:

"وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة."

(كتاب الغصب، 6/ 179، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا يجوز حمل تراب ربض المصر لأنه حصن فكان حق العامة."

(کتاب الکراهية، الباب الثلاثون في المتفرقات، 5/  373، ط: دار الفکر)

وفيها أيضا:

"‌وإذا ‌أخذ ‌المال ‌ولم ‌يصنع ‌شيئا ‌غيره ‌فإن ‌جاء ‌تائبا ‌قبل ‌أن ‌يؤخذ ‌فعليه ‌أن ‌يرد ‌ما ‌أخذوا، ‌وضمانه ‌إن ‌هلك، ‌كذا ‌في ‌السراجية."

(كتاب السرقة، الباب الرابع، 187/2، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم

 


فتوی نمبر : 144507102173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں