بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کسی نو مسلم خاتون کا دین بچانے کے لیے تین طلاق کے مسئلے میں اہلِ حدیث کے فتوے پر عمل کیا جاسکتا ہے؟


سوال

میری شادی میرے شوہر کی پسند سے والدین کی رضامندی سے12 سال پہلے ہوئی، شوہر ملک سے باہر ہی رہتے تھے، میں رخصت ہوکر وہیں گئی۔ میں خود ڈاکٹر ہوں تو شوہر کی خواہش پر پاکستان میں اپنی پوسٹ گریجویٹ کرنے آئی، اس وقت ایک بچی 3 سال کی تھی۔ سب ٹھیک رہا، آنا جانا بیچ میں ہوتا رہا، اس دوران ان کے معاشی حالات خراب رہے، چھ سال بعد واپسی ہو سکی۔ یہاں ایک اور بیٹا ہوا ہمارا۔

اب کچھ عرصہ پہلے معلوم ہوا کہ اس دوران انہوں نے ایک عورت کو مسلمان کر کے دوسری شادی کر لی تھی، اور ایک بچی بھی ہے۔ یہ بات مجھے واپسی کے 3 سال بعد معلوم ہوئی، بہت تکلیف ہوئی۔ اس دوران ایک اور بیٹی بھی ہوگئی اس عورت سے،وہ بھی کسی سے معلوم ہوا۔

گھر کے حالات خراب رہنے لگے، ماحول میں خلش آگئی، اس کے علاوہ بھی بہت سے جھوٹ پکڑ ے گئے۔  اس کے بار بار کے جھوٹ پر میں برداشت نہ کر سکی، بہت غصے میں تھی، کافی کچھ کہہ گئی، تو  انہوں نے اس غصے میں دوسری بیوی کو ایک وقت میں تین طلاق دے دیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ کہیں یہ قدم اس نو مسلم کو واپس اپنے دین پر نہ لےجائے، اور دو معصوم بچیوں کا بھی سوال ہے، میاں صاحب بھی بہت ڈپریشن میں ہیں۔ وہ اکثر اوقات اہلِ حدیث کے فتوے پر عمل کرتے ہیں، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ اس میں بھی طلاق کے اس فتوے پر عمل کرکے اس سے رجوع کرلیں؟ اس میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ کیوں کہ یہ تین زندگیوں کی بربادی کے خدشہ کا مسئلہ ہے، وہ بچیاں بھی بے دین نہ ہو جائیں اور ماں بھی۔ اس عورت کا پیچھے کوئی نہیں، اس کا ڈر مجھے اب پریشان کر رہا ہے اور میں بہت استغفار بھی کر رہی ہوں۔ میں اپنی، اپنے شوہر، اس دوسری بیوی اور ان بچیوں کی زندگی بچانے کے لیے پوچھ رہی ہوں کہ بہت مجبوری میں کیا ان کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ جس طرح اہلِ حدیث کے باقی فتوے مان لیتے ہیں اس مسئلے پر بھی ان کے فتوے پر عمل کر سکتے اور اس عورت سے رجوع کرسکتے ہیں؟ تاکہ اس عورت اور بچیوں کو بےدین ہونے سے بچایا جاسکے؟ برائے مہربانی اس پر ضرور غور کریں اورگزارش ہے کہ جتنا جلد ہوسکے جواب دے دیں۔ اللہ پاک آپ کو عافیت میں رکھیں آمین ۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینا بہت بڑا گناہ کا کام ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ،  امام مالک ،   امام شافعی، اور  امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کی تصریحات کے مطابق ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، اور دینے والے کی بیوی پر واقع ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں اُن کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے،ایسے فتوے پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کے شوہر نے اپنی دوسری بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں، تو اس پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، نکاح ختم ہوچکا اور وہ عورت آپ کے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی،لہٰذا وہ اپنی عدتِ طلاق (حمل نہ ہونے کی صورت میں مکمل تین ماہواریاں، اور حمل ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش تک) گزار کر کسی اور جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

ہاں البتہ عدت گزرنے کے بعد، وہ عورت  اگر کسی دوسرے شخص سے نکاحِ صحیح  کرلے، اور پھر دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق بھی) قائم ہوجائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر  اس عورت کو طلاق دے دے، یا  وہ خود طلاق لے لے، یا اُس شخص کا انتقال ہوجائے، تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر کے ساتھ شرعی گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

باقی آپ نے سوال میں جو خدشات ذکر کیے ہیں اُن کی بنیاد پر شریعت کے ایک واضح حکم کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی، آپ کو یہ باتیں اپنے شوہر کو برانگیختہ کرنے سے پہلے سوچنی چاہیے تھیں، بہرحال اب بہتری اسی میں ہے کہ ایک گناہ کا ازالہ کرنے کے لیے دوسرا گناہ  کرنے کے بجائے شریعت کے حکم  پر صحیح طور پر عمل کیا جائے، مذکورہ خاتون اگر اللہ رب العزت کی رضا کے لیے اسلام لائی ہیں، تو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے حکم پر عمل کرنے سے ان شاء اللہ وہ اسلام سے دور نہیں ہو گی، بلکہ اور قریب ہوجائے گی، اور اللہ رب العزت اُن کے لیے آسانیوں کے دروازے کھول دیں گے، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی ہم سے زیادہ فکر ہے، اور وہی ہر ایک کے پروردگار ہیں اور وہ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم میں ہے :

"﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾." [البقرة: ٢٢٩]

ترجمہ:"وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑ دینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔" (بیان القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"ترجم البخاري على هذه الآية" ‌باب ‌من ‌أجاز ‌الطلاق الثلاث بقوله تعالى: الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان" وهذا إشارة منه إلى أن هذا التعديد إنما هو فسخه لهم، فمن ضيق على نفسه لزمه. قال علماؤنا: واتفق أئمة الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة، وهو قول جمهور السلف."

(سورة البقرة، ٣/ ١٢٨، ط: دار الكتب المصرية)

ترجمہ: "امام بخاری ؒنے اس آیت پر یہ عنوان قائم کیا ہے: "بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ"، اور یہ امام بخاریؒ کی طرف سے اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں   کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے۔"

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾." [البقرة: ٢٣٠]

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)"

اس آیت کے ذیل میں کتاب الام  میں ہے:

"(قال الشافعي): والقرآن يدل والله أعلم على أن ‌من ‌طلق ‌زوجة له دخل بها أو لم يدخل بها ثلاثا لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره."

(باب إباحة الطلاق، ‌‌طلاق التي لم يدخل بها، ٥/ ١٩٦، ط: دار الفكر)

ترجمہ:" امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: اور قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ  جو شخص اپنی بیوی، خواہ مدخول بہا ہو یا غیر مدخول بہا ہو،  کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة أن رجلًا طلّق امرأته ثلاثًا فتزوجت فطلّق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحلّ للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

(كتاب الطلاق،باب من أجاز الطلاق الثلاث، ط:رحمانيہ)

ترجمہ: "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔"

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن مجاهد، قال: كنت عند ابن عباس، فجاءه رجل فقال: إنه ‌طلق ‌امرأته ‌ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم فيركب الحموقة ثم يقول: يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا}، وإنك لم تتق الله فلا أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك."

(أول كتاب الطلاق، باب نسخ المراجعة بعد التطليقات الثلاث، ٣/ ٥١٩، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: "مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"فالكتاب والسنة وإجماع السلف ‌توجب ‌إيقاع ‌الثلاث معا وإن كانت معصية."

(ومن سورة البقرة، ١/ ٤٦٩، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ: "علامہ ابو بکر جصاص  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  قرآن کریم ، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجما ع  ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایساکرنا گناہ ہے ۔"

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

 "وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف ‌يقع ‌الثلاث."

(كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ١٠/ ٧١، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کہے: "أنت طلاق  ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں) اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور  جمہور  علماء  فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں  گی۔"

الاشفاق علی احکام الطلاق میں ہے:

"قال ابن رجب: لانعلم من الأمة أحداً خالف في هذه المسئلة مخالفةً ظاهرةً ولا حکماً ولا قضاءً ولا علماً ولا إفتاءً، ولم یقع ذلك إلا من نفر یسیر جداً وقد أنکر علیهم من عاصرهم غایة الإنکار وکان أکثرهم یستخفي بذلك، ولایظهره."

(حديث ابن عباس في إمضاء عمر للثلاث، ص: ٥٠، ط: المكتبة الأزهرية للتراث)

ترجمہ: "حافظ ابن رجب حنبلی  رحمہ اللہ   لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی  ایک فرد کا علم نہیں  جو اس سلسلے میں فیصلہ ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے  ، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے،ان میں سے اکثر  اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ "

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من ‌أئمة ‌المسلمين ‌إلى ‌أنه ‌يقع ثلاث."

(كتاب الطلاق، ٣/ ٢٣٣، ط: سعيد)

ترجمہ: "علامہ شامی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں  کہ جمہور صحابہ ،  تابعین اور ان  کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب  پر ہیں کہ  تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔"

بدائع الصنائع  میں ہے : 

"وأما ‌الطلقات ‌الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

 (كتاب الطلاق، فصل في شرائط رجوع المبتوتة لزوجها، ٣/ ١٨٧، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوىٰ  عالمگیریہ  میں ہے :

"إذا ‌كان ‌الطلاق ‌بائنا ‌دون ‌الثلاث ‌فله ‌أن ‌يتزوجها ‌في ‌العدة  وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

 (كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ١/ ٤٧٢، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) (وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه) ... (و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية ... (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ٣/ ٥٠٥، ٥١١، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں