بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا خود کشی کرنے والا جہنمی ہے، اگرچہ اس کے جنازہ میں زیادہ لوگ شریک ہوں؟/ بخشش کے سہارے گناہ کرنا


سوال

اگر حالات یا بیماری سے تنگ ہوکر کوئی خود کشی کرلے، تو کیا وہ جہنم میں جائےگا، اگر چہ اس کے جنازہ میں آٹھ سے زیادہ صفیں ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جسم  اللہ تعالی کی امانت ہے،کوئی بھی انسان اپنی جسم میں ہر قسم کے تصرف کرنے کا مجاز نہیں، بل کہ جس طرح کسی اور کی مملوکہ چیز میں کسی انسان کو بغیراجازت کےتصرف کرنے کا اختیار نہیں،اسی طرح اللہ تعالی کی طرف سے ملے ہوئے جسم میں بھی انسان ہرقسم کے تصرف کا مجاز نہیں؛لہذا کسی بھی انسان کے لیے اپنے جسم کو بلاوجہ تکلیف دینے مثلاً ہاتھ کاٹنے یا کھانا پیناچھوڑنے وغیرہ کی اجازت نہیں، اور پوری جان کو ضائع کرنا یعنی خود کشی کرنا تو گناہِ کبیرہ کی حد میں داخل ہوجاتاہے، اور خود کشی کو روا سمجھنے والا تو دائرۂِ اسلام سے ہی خارج ہوجاتاہے؛لہذا  حالات یا بیماری سے تنگ ہوکر خودکشی کرنا گناہِ کبیرہ ہے، تاہم کسی خود کشی کرنے والے کو یقینی طور پر جہنمی نہیں کہاجائےگا، بل کہ اس کبیرہ گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوجائےگا،البتہ   اگر اللہ تعالی چاہے، تو بغیر سزا دییے بھی  اس کی بخشش ہوسکتی ہے، لیکن یہ اللہ کی مرضی پر ہے، جو کسی کو بھی معلوم نہیں۔

جہاں تک جنازہ میں آٹھ صفوں والی بات ہے، تو روایاتِ حدیث میں جنازہ کی صفوں کی کثرت کو باعثِ بخشش فرمایاہے، لیکن یہ  دوشرطوں کے ساتھ مقید  ہے: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جنازہ کے شرکاء خالص مسلمان ہوں، اُن میں کوئی مشرک نہ ہو، اور دوسری شرط  یہ ہے کہ وہ شرکاء اخلاص کے ساتھ میت کے لیے دعاء واستغفار کریں، لیکن کسی بھی گناہِ کبیرہ  کاارتکاب محض اس سہارے کرنا - کہ میرے جنازہ میں کثیر تعداد کے لوگ شریک ہوں گے، اور میں اس گناہ کے سزا سے بری  ہوجاؤں گا، یہ ناسمجھی اور نادانی ہے، نہ تو کثیر تعداد میں لوگوں کا شریک ہونا یقینی ہے، اور نہ ہی اُن سب کا اخلاص کےساتھ اُس کے لیے بخشش کرنا یقینی ہے؛اس لیے اس قسم کے شیطانی وساوس سے اجتناب کرنا چاہیے، اور صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔

العقیدۃ الطحاویۃ میں ہے:

"‌وأهل ‌الكبائر [‌من ‌أمة ‌محمد صلى الله عليه وسلم ] في النار لا يخلدون إذا ماتوا وهم موحدون وإن لم يكونوا تائبين بعد أن لقوا الله عارفين [مؤمنين] وهم في مشيئته وحكمه إن شاء غفر لهم وعفا عنهم بفضله كما ذكر عز وجل في كتابه: (ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء) وإن شاء عذبهم في النار بعدله ثم يخرجهم منها برحمته وشفاعة الشافعين من أهل طاعته ثم يبعثهم إلى جنته وذلك بأن الله تعالى تولى أهل معرفتهولم يجعلهم في الدارين كأهل نكرته الذين خابوا من هدايته ولم ينالوا من ولايته."

(ص:٦٥، ط:المكتب الإسلامي)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"لم يقل بكفر المنتحر أحد من علماء المذاهب الأربعة؛ لأن الكفر هو الإنكار والخروج عن دينالإسلام، وصاحب الكبيرة - غير الشرك - لا يخرج عن الإسلام عند أهل السنة والجماعة، وقد صحت الروايات أن العصاة من أهل التوحيد يعذبون ثم يخرجون. بل قد صرح الفقهاء في أكثر من موضع بأن المنتحر لا يخرج عن الإسلام، ولهذا قالوا بغسله والصلاة عليه كما سيأتي، والكافر لا يصلى عليه إجماعا. ذكر في الفتاوى الخانية: المسلم إذا قتل نفسه في قول أبي حنيفة ومحمد يغسل ويصلى عليه.

وهذا صريح في أن قاتل نفسه لا يخرج عن الإسلام، كما وصفه الزيلعي وابن عابدين بأنه فاسق كسائر فساق المسلمين كذلك نصوص الشافعية تدل على عدم كفر المنتحر.وما جاء في الأحاديث من خلود المنتحر في النار محمول على من استعجل الموت بالانتحار، واستحله، فإنه باستحلاله يصير كافرا."

(حرف الألف، ٢٩٢/٦، ط: دارالسلاسل)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌الزهري قال: أخبرني ‌سعيد بن المسيب ‌وأبو سلمة بن عبد الرحمن: أن ‌أبا هريرة رضي الله عنه قال: «قام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزل الله عز وجل: {وأنذر عشيرتك الأقربين} قال: يا معشر قريش أو كلمة نحوها اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا ‌يا ‌بني ‌عبد ‌مناف ‌لا ‌أغني ‌عنكم ‌من ‌الله ‌شيئا يا عباسبن عبد المطلب لا أغني عنك من الله شيئا ويا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا ويا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا.» تابعه أصبغ عن ابن وهب عن يونس عن ابن شهاب."

(كتاب الوصايا، ٦/٤، ط:السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

نیل الاوطار میں علامہ شوکانی ؒ لکھتے ہیں:

"(وعن مالك بن هبيرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «ما من مسلم يموت فيصلي عليه أمة من المسلمين، يبلغون أن يكونوا ثلاثة صفوف إلا غفر له فكان مالك بن هبيرة يتحرى إذا قل أهل الجنازة أن يجعلهم ثلاثة صفوف» . رواه الخمسة إلا النسائي). . . قوله: (يبلغون أن يكونوا ثلاثة صفوف) فيه دليل على أن من صلى عليه ثلاثة صفوف من المسلمين غفر له، وأقل ما يسمى صفا رجلان، ولا حد لأكثره قوله: (يبلغون مائة) فيه استحباب تكثير جماعة الجنازة ويطلب بلوغهم إلى هذا العدد الذي يكون من موجبات الفوز، وقد قيد ذلك بأمرين: الأول: أن يكونوا شافعين فيه: أي مخلصين له الدعاء، سائلين له المغفرة. الثاني: أن يكونوا مسلمين ليس فيهم من يشرك بالله شيئا كما في حديث ابن عباس."

(‌‌أبواب الصلاة على الميت، ٦٨/٤، ط:دار الحديث، مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں