بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا خاتون نکاح خواں بن سکتی ہے؟


سوال

کیا عورت دوسرےکا نکاح پڑھاسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   انعقاد  نکاح کی شرائط میں سے اہم شرط یہ ہے کہ عاقل بالغ مسلمان مرد و خاتون دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان خواتین کے سامنے نکاح کا  ایجاب و قبول کریں ، پس اگر مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق  نکاح کا ایجاب و قبول کر لیا جائے ، تو شرعا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، خواہ خطبہ نکاح پڑھا گیا ہو، یا نہیں پڑھا گیا ہو، کیوں کہ خطبہ نکاح فرض یا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے،  لہذا صورت مسئولہ میں  اگر کوئی عالمہ فاضلہ  خاتون اپنے  محارم کی موجودگی میں خطبہ  نکاح پڑھ کر گواہوں کی موجودگی میں اپنی نگرانی میں ایجاب  و قبول کرواتی ہے، تو  اس کے اس عمل سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوگا،  لیکن خاتون کا خطبہ نکاح پڑھنا   خیر القرون سے لے کر آج تک کے  متوارث  طریقہ کے خلاف ہے،  یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پردہ فرماجانے کے بعد  امہات المؤمنين   سے کسی نے بھی خطبہ نکاح نہیں پڑھوایا،  نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  نکاح مساجد میں کرنے اور اس کی تشہیر  کا حکم فرمایا ہے،  اس طرح خاتون کا خطبہ نکاح  پڑھنا خواہ مسجد میں ہو، یا شادی ہال وغیرہ  غير محرم مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز بلند کرنے کا باعث  ہے، جس کی شرعا اجازت نہیں، یہی وجہ ہے کہ خاتون کو اذان  کہنے کی شرعا اجازت نہیں،  لہذا متوارث طریقہ کے مطابق ہی نکاح کی تقریب منعقد کرنا چاہیئے۔

النتف في الفتاوي میں ہے:

" وشرائط النكاح الصحيح المجمع على صحته سبعة،احدها رضاء المرأة اذا كانت حرة بالغة عاقلة،والثاني رضاء الولي اذا كان الولي حرا بالغا عاقلا مسلما،والثالث خلو ما بين الزوجين من الحرمة المؤبدة والموقته التي قدمنا ذكرها،والرابع الشهود،والخامس الكفاءة،والسادس القدرة على المهر والنفقة،والسابع تولي العقد من الزوجين او من ينوب عنهما من ولي او وكيل او متكلف او ما يقوم مقام الخطاب من كتاب او رسالة."

( كتاب النكاح، شرائط النكاح الصحيح، ١ / ٢٧٠، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

" ومن ذلك استحب العلماء الخطبة عند النكاح. وقال الترمذي: وقد قال بعض أهل العلم: إن النكاح جائز بغير خطبة، وهو قول سفيان الثورى وغيره من أهل العلم. قلت: وأوجبها أهل الظاهر فرضا واحتجوا بأنه صلى الله عليه وسلم خطب عند تزوج فاطمة، رضي الله تعالى عنها، وأفعاله على الوجوب، واستدل الفقهاء على عدم وجوبها بقوله في حديث سهل بن سعد: قد زوجتها بما معك من القرآن، ولم يخطب."

(كتاب فضائل القرآن، باب الخطبة، ٢٠ / ١٣٤، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

" ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.

(قوله: ويندب إعلانه) أي إظهاره والضمير راجع إلى النكاح بمعنى العقد لحديث الترمذي «أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف» فتح."

( كتاب النكاح، ٣ / ٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں