بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعا قبول ہونے کے شرائط/ کیا کھڑے ہوکر کپڑے پہننے سے دعا قبول نہیں ہوتی؟


سوال

کھڑے ہو کر  کپڑے  بدلنے  سے  کیا دعا قبول نہیں ہوتی؟ ہمارے  رشتہ  دار  ہیں،  انہوں  نے  ایک  دن  ہمارے  گھر  میں آکر  کہا کہ کھڑے ہو کر کپڑے بدلنے سے دعا قبول نہیں ہوتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ  شریعتِ  مقدسہ  نے  مسلمان  کی  قبولیتِ  دعا  کی  لیے   چند شروط  ذکر   کی ہیں:

1:صدقِ دل  سے  دعا کی جائے،2:قبول ہونے کی جلدی نہ کی  جائے،3:کسی حرام اور ناجائز چیز کو طلب نہ کیاجائے،4:اور حلال کھانے پینے کا اہتمام کیا جائے ، مذکورہ  شروط کی رعایت کرتے ہوئے اگر کوئی مسلمان  دعا کرےگا تو ان شاء اللہ اس کی دعا قبول ہوگی۔

کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ کھڑے ہوکر کپڑے پہننے سے دعا قبول نہیں ہوتی، یہ بات غیر مستند اور بے بنیاد ہے،کپڑے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر دونوں طریقہ سے پہن سکتے ہیں، کسی خاص ہیئت کی پابندی نہیں ہے،بہر دو صورت ستر چھپانے کا اہتمام کیا جائے یعنی اگرقمیص پہن لی گئی  ہو تو شلوار کھڑے ہوکر پہن سکتا ہے اور اگر قمیص نہیں پہنی تو بیٹھ کر شلوار پہن لی جائے؛ کیوں کہ یہ زیادہ استر  (ستر  پوشی کی حالت) ہے، نیز کپڑے پہننے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے:   "اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ كَسَانِيْ هٰذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنِّيْ وَلَا قُوَّةٍ"(سب تعریف اللہ  ہی کے  لیے ہے جس نے یہ پہنایا اور مجھے نصیب کیا بغیر میری کوشش اور قوت کے)، یا اس کے علاوہ کپڑے پہننے کی کوئی مسنون دعا پڑھ لے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"و من لبس ثوبًا فقال: الحمد لله الذي ‌كساني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ."

(کتاب اللباس،ج:2،ص:1245،ط:المکتب الاسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں  ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يستجاب للعبد": أي: بعد ‌شروط ‌الإجابة "ما": ظرف يستجاب بمعنى المدة أي: مدة كونه "لم يدع بإثم": مثل أن يقول: اللهم قدرني على قتل فلان وهو مسلم، أو اللهم ارزقني الخمر... وأمثال ذلك من المستحيلات، كرؤية الله يقظة في الدنيا،..." أو قطيعة رحم ": نحو: اللهم باعد بيني وبين أبي فهو تخصيص بعد تعميم " ما لم يستعجل ": قال الطيبي: الظاهر ذكر العاطف في قوله: ما لم يستعجل، لكنه ترك تنبيها على استقلال كل من القيدين أي: يستجاب ما لم يدع، يستجاب ما لم يستعجل. (قيل: يا رسول الله ما الاستعجال؟ قال: يقول) : أي: الداعي (قد دعوت، وقد دعوت) : أي: مرة بعد أخرى يعني مرات كثيرة، أو طلبت شيئا وطلبت آخر... " ويدع الدعاء ": أي: يتركه مطلقا، أو ذلك الدعاء. ولا ينبغي للعبد أن يمل من الدعاء، لأنه عبادة، وتأخير الإجابة إما لأنه لم يأت وقته ; لأن لكل شيء وقتا مقدرا في الأزل، أو لأنه لم يقدر في الأزل قبول دعائه في الدنيا فيعطى في الآخرة من الثواب عوضه، أو يؤخر دعاؤه ليلح ويبالغ في الدعاء، فإن الله يحب الملحين في الدعاء، ولعل عدم قبول دعائه بالمطلوب المخصص خير له من تحصيله، {والله يعلم وأنتم لا تعلمون} . (رواه مسلم)."

(کتاب الدعوات، ج:4، ص:1425، ط:دار الفکر)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"و من ‌شروط ‌الإجابة: إخلاص النية. ومنها: أن لا يستعجل الإجابة لحديث: "يستجاب لأحدكم ما لم يقل دعوت فلم يستجب لي"، وحضور القلب وأن لا يدعو بمحرم، ومنها: طيب المطعم والمشرب والملبس وأن يوقن الإجابة و أن لايعلق بالمشيئة، و في شرح الأربعين النووية للشرخيتي أن من التعليق قوله: "اللهم عاملنا بما أنت أهله كأنه -والله تعالى أعلم- يقول: "إن عاملتنا بما أنت أهله، ومنها أن لا يدعو بمستحيل. قوله: " إن هذا كتاب ": مقول القول قوله: " صغير حجمه ": أي جسمه أي بالنسبة للشرح."

(خطبة الكتاب، ص:15، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں