بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جوئے بازی کے مال سے عمرہ اور حج کرنا جائز ہے؟


سوال

حرام مال سے عمرہ اور حج کرنا جائز ہے اور مال جوئے بازی کا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جوئے سے حاصل شدہ مال خرید کر کھانا یا استعمال کرنا اور استعمال کرنا، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے،حرام  مال ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِ  زکات کو دینا شرعًا ضروری ہوتا ہے،   اس لیے مذکورہ شخص کے لیے حج جیسی عظیم عبادت  اس حرام رقم  سے ادا کرنا  درست نہیں ہے، ایسا حج قبول نہیں  ہوتا، گوکہ فرضیت اپنی گردن سے اتر جاتی ہے، لہٰذا مال حرام کے بجائےخالص حلال کی رقم سے حج کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔

   قرآن کریم  و حدیث میں جوئے کی واضح ممانعت موجود ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " [المائدة :90]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حلف فقال في حلفه: واللات والعزى، فليقل: لا إله إلا الله، ‌ومن ‌قال ‌لصاحبه: ‌تعال ‌أقامرك، فليتصدق»."

(کتاب تفسیر القرآن، ج:6، ص:141، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قسم کھائی لات اور عزی ٰ کی تو اس کو چاہئے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے، اور جس شخص نے اپنے ساتھی سےکھاکہ "آؤ جوا کھیلیں"تو اس کو چاہیئے کہ وہ صدقہ کرے۔" 

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: ‌من ‌لعب ‌بالنرد ‌قمارا كان كآكل لحم الخنزير، ومن لعب بها غير قمار كان كالمدهن بودك الخنزير."

(كتاب الأداب، فصل في اللعب بالنرد وما جاء فيه، ج:14، ص:372، ط:دارالكنوز)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ ابن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ جوشخص نے نرد(چوسر) جوے کے طور پر کھیلتاہے وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے،اور جو شخص نرد جوئے کے طور پر نہیں کھیلتاتو اس کی مثال خنزیر کی چربی کا تیل استعمال کرنے والے کی طرح ہے۔" 

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب فيمن حج بمال حرام

(قوله: كالحج بمال حرام) كذا في البحر والأولى التمثيل بالحج رياء وسمعة، فقد يقال: إن الحج نفسه الذي هو زيارة مكان مخصوص إلخ ليس حرامًا بل الحرام هو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بينهما، كما أن الصلاة في الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المكان المغصوب لا من حيث كون الفعل صلاة لأن الفرض لا يمكن اتصافه بالحرمة، وهنا كذلك فإن الحج في نفسه مأمور به، وإنما يحرم من حيث الإنفاق، وكأنه أطلق عليه الحرمة لأن للمال دخلا فيه، فإن الحج عبادة مركبة من عمل البدن والمال كما قدمناه، ولذا قال في البحر ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج. اهـ. أي لأن عدم الترك يبتنى على الصحة: وهي الإتيان بالشرائط، والأركان والقبول المترتب عليه الثواب يبتنى على أشياء كحل المال والإخلاص كما لو صلى مرائيًا أو صام واغتاب فإن الفعل صحيح لكنه بلا ثواب والله تعالى أعلم."

(كتاب الحج، ج:2، ص:456،  ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں