بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جمعہ کی نماز قائم کرنا صرف ریاست کے حکمران کی ذمہ داری ہے؟


سوال

میڈیا پر مشہور اور علمائے کرام کے یہاں ایک متنازع اسکالر کہتا ہے کہ " جمعہ کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس نماز کا تعلق ریاست سے ہے، ریاست کے جو حکمران ہیں،یہ ان کا کام ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کا اہتمام کریں،انہی کا کا م ہے کہ  منبر پر بیٹھ کر جمعہ کا خطبہ دیں یا اپنے نمائندے کو بھیجیں،کوئی عالم،کوئی فقیہ،کوئی بڑے سے بڑاامام بھی اس منبر پر بیٹھنے کا حق نہیں رکھتا،رسالت ماٰب  کے زمانے میں،خلفائے راشدین کے زمانے میں ،اگر کوئی عالم کہیں جمعہ کے منبر پر بیٹھ جاتا تو یہ نا مناسب سمجھا جاتا،جلیل القدر فقہاء (امام اعظم ابوحنیفہ،امام شافعی،امام مالک،امام احمد بن حنبل) کا کوئی تصور ملتاہے کہ کسی نے جمعہ کا خطبہ پڑھایا ہو،یہ سب کا سب ریاست کے حکمران یا اس کے نمائندے کا حق ہے،جب مسلمانوں کے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو جیسے اگر پانی نہ ملے تو لوگ تیمم کرلیتے ہیں ،تو اسی طرح ان لوگوں نے خو د اس کا اہتمام کرڈالا ہے،اب اگر مسلمانوں نے اس کا اہتمام کیا ہوا ہے،تو اچھی بات ہے،ورنہ  توآپ ظہر پڑھ سکتے ہیں،"اب پو چھنا یہ ہے کہ : آیا جمعہ قائم کرنا صرف مسلمانوں کے حکمرانوں کاحق ہے یا تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے؟ کیا موجودہ زمانے میں جمعہ قائم کرنامحض ایک اچھی بات ہے،فرض واجب نہیں ہے؟ اسکا لر کی بات” کہ یہ ریاست کے حکمران یا اس کے نمائندے کاحق ہے“یہ  کہاں تک درست ہے؟

جواب

1۔واضح رہے  کہ ریاست حکمران کے قیام پر  جمعہ کا واجب ہونا  موقوف نہیں  ہے،چنانچہ  جہاں  اسلامی سلطنت قائم ہو اوروہاں ریاست کے حکمران کی  طرف سے صراحۃ ً یا دلالۃً اجازت ہویا جہاں اسلامی سلطنت قائم ہی نہ ہو اور وہاں جمعہ کی وجوب کی شرطیں پائی جائیں تو  وہاں  تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ   کسی کو اپنا  امام  کو منتخب کرکے وہاں جمعہ قائم کرائے۔

2۔واضح رہےکہ امت کا اجماع ہے کہ   اللہ تعالی کے اس فرمان" {إذا نودي للصلاة ‌من ‌يوم ‌الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع }کی بناء پر جمعہ  کی نماز فرض ہے،اللہ کے نبی علیہ السلام سے بے شمار حدیثیں جمعہ کی فضیلت  اور تارکِ جمعہ کی وعیدوں پر وارد ہیں، اس لیے جمعہ کو ترک کرنے والا( چھوڑنے والا) گناہ گار اور عذاب کامستحق ٹھہرتا ہے۔

3۔اسکا لر کی بات کہ جمعہ کا قائم کرنا ریاست کے حکمران  کا حق ہے،جہاں  حکمران  جمعہ کو قائم نہ کرے وہاں ظہر کی نماز پڑھی جائےاور جمعہ پڑھ لے تو اچھی بات ہے، یہ بات  درست نہیں ہے،بلکہ شریعت میں وہاں تمام مسلمانوں کی ذمہ دار ی بنتی ہے کہ وہاں تمام مسلمان اپنا امام کسی کو منتخب کرکے وہاں فرض نماز ”جمعہ “کا قیام کرے۔

ترمذی شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌ترك ‌الجمعة ‌ثلاث ‌مرات ‌تهاونا ‌بها طبع الله على قلبه» وفي الباب عن ابن عمر، وابن عباس، وسمرة: «حديث أبي الجعد حديث حسن»."

(أبواب الجمعة،‌‌باب ما جاء في ترك الجمعة من غير عذر،ج: 2،ص: 273، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو آدمی محض سستی و کاہلی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگائے دے گا‘‘۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لقوم ‌يتخلفون ‌عن ‌الجمعة: «لقد هممت أن آمر رجلا يصلي بالناس ثم أحرق على رجال ‌يتخلفون ‌عن ‌الجمعة بيوتهم» . "

(باب الجمعة، الفصل الثالث، ج: 1،ص: 435، ط: دار الکتاب الإسلامی)

ترجمہ: ہ اللہ کے ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہے کہ : نبی علیہ السلام نےفرمایاکہ میرا ارادہ بنتاہے کہ میں کسی اور کو اپنی جگہ امامت کا نائب بناؤں، اور پھر میں بذاتِ خود اُن لوگوں کے گھروں کو آک لگاؤں جولوگ جمعہ کی نماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

(وعن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ترك الجمعة ") ، أي: صلاتها (" من غير ضرورة ") : كالخوف من ظالم ونحوه كالمطر والثلج والوحل ونحوها. كذا في شرح المنية. (" كتب منافقا ") : وعيد صعب شديد (" في كتاب لا يمحى ") : ما فيه (" ولا يبدل ") : بالتشديد ويخفف، أي: لا يغير بغيره ما لم يتب، وقيل: أو ما لم يتصدق، (وفي بعض الروايات " ثلاثا ") ، أي: قال: ومن ترك الجمعة ثلاثا. (رواه الشافعي)."

(كتاب  الصلاة، باب وجوبها، ج: 3، ص: 1027، ط:دار الفكر)

البحر الرائق  میں ہے:

"أن الإمام إذا منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا كما أن له يمصر موضعًا كان له أن ينهاهم، قال الفقيه أبو جعفر: هذا إذا نهاهم مجتهدًا بسبب من الأسباب، وأراد أن يخرج ذلك المصر من أن يكون مصرًا، أما إذا نهاهم متعنتًا أو إضرارًا بهم فلهم أن يجمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة، ولو أن إمامًا مصّر مصرًا ثمّ نفر الناس عنه لخوف عدو أو ما أشبه ذلك، ثم عادوا إليه فإنهم لايجمعوا إلا بإذن مستأنف من الإمام، كذا في الخلاصة. ودل كلامهم أن النائب إذا عزل قبل الشروع في الصلاة ليس له إقامتها؛ لأنه لم يبق نائبًا، لكن شرطوا أن يأتيه الكتاب بعزله أو يقدم عليه الأمير الثاني، فإن وجد أحدهما فصلاته باطلة، فإن صلى صاحب شرط جاز؛ لأنّ عمالهم على حالهم حتى يعزلوا، كذا في الخلاصة. وبه علم أن الباشا بمصر إذا عزل فالخطباء على حالهم، ولايحتاجون إلى إذن جديد من الثاني إلا إذا عزلهم، وقيدنا بكونه علم العزل قبل الشروع؛ لأنه لو شرع ثم حضر وال آخر فإنه يمضي في صلاته كرجل أمره الإمام أن يصلي بالناس الجمعة، ثم حجر عليه وهو في الصلاة لايعمل حجره؛ لأن شروعه صحّ، وإن حجر عليه قبل الشروع عمل حجره."

(باب صلاة الجمعة، شروط صحة الجمعة، ج: 2، ص: 157، ط: دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت".

(كتاب الصلاة، فصل  بيان شرائط الجمعة، ج: 1، ص: 259، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

وأما السلطان فشرط أداء الجمعة عندنا حتى لا يجوز إقامتها بدون حضرته أو حضرة نائبه، وقال الشافعي السلطان ليس بشرط؛ لأن هذه صلاة مكتوبة فلا يشترط لإقامتها السلطان كسائر الصلوات، ولنا أن النبي صلى الله عليه وسلم شرط الإمام لإلحاق الوعيد بتارك الجمعة بقوله في ذلك الحديث «وله إمام عادل أو جائر» .

وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «أربع إلى الولاة وعد من جملتها الجمعة» ؛ ولأنه لو لم يشترط السلطان لأدى إلى الفتنة؛ لأن هذه صلاة تؤدى بجمع عظيم والتقدم على جميع أهل المصر يعد من باب الشرف وأسباب العلو والرفعة فيتسارع إلى ذلك كل من جبل على علو الهمة والميل إلى الرئاسة فيقع بينهم التجاذب والتنازع وذلك يؤدي إلى التقاتل والتقالي ففوض ذلك إلى الوالي ليقوم به أو ينصب من رآه أهلا له فيمتنع غيره من الناس عن المنازعة لما يرى من طاعة الوالي أو خوفا من عقوبته؛ ولأنه لو لم يفوض إلى السلطان لا يخلو إما أن تؤدي كل طائفة حضرت الجامع فيؤدي إلى تفويت فائدة الجمعة وهي اجتماع الناس لإحراز الفضيلة على الكمال، وإما أن لا تؤدى إلا مرة واحدة فكانت الجمعة للأولين وتفوت عن الباقين فاقتضت الحكمة أن تكون إقامتها متوجهة إلى السلطان ليقيمها بنفسه أو بنائبه عند حضور عامة أهل البلدة مع مراعاة الوقت المستحب والله أعلم، هذا إذا كان السلطان أو نائبه حاضرا.

 فأما إذا لم يكن إماما بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس أن يجمع الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة، وهكذا روي عن محمد ذكره في العيون؛ لما روي عن عثمان رضي الله عنه أنه لما حوصر قدم الناس عليا رضي الله عنه فصلى بهم الجمعة."

(كتاب الصلاة، فصل  بيان شرائط الجمعة، ج: 1، ص: 261، ط: دار الكتب العلمية)

مراقی الفلاح میں ہے:

"صلاة الجمعة فرض عين" بالكتاب1 والسنة والإجماع ونوع من2 المعنى يكفر جاحدها لذلك. وقال عليه السلام في حديث "واعلموا أن الله تعالى فرض عليكم الجمعة في يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا فمن تركها تهاونا بها واستخفافا وله إمام عادل أو جائر فلا جمع الله شمله ولا بارك له في أمره ألا فلا صلاة له ألا فلا زكاة له ألا فلا صوم له إلا أن يتوب فمن تاب تاب الله عليه" وقال صلى الله عليه وسلم "من ترك ثلاث جمع متواليات من غير عذر طبع الله على قلبه ومن يطبع الله على قلبه يجعله في أسفل درك جهنم". والجمعة فرض آكد من الظهر "على" كل "من اجتمع فيه سبعة شرائط."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، 192، ط:المكتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں