ہماری زمین تقسیم ہوئی، ایک بندے کے حق میں اپنا حصہ آیا، اور اس کا ثبوت بھی اس کے پاس موجود ہے ،اس کے بعد کوئی اور شخص اس کی زمین پر دعویٰ کرتا ہے، اور پھر جرگہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ زمین دونوں کے درمیان آدھی آدھی ہے، حالانکہ اس دوسرے شخص نے اپنے دعوے کو گواہوں کے ذریعے ثابت بھی نہیں کیا ہے ،اب یہ فیصلہ جائز ہے یا ناجائز ؟
اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ جس شخص کی زمین تھی اور اس کے پاس ثبوت بھی ہے، اس کے باوجود جرگے کو اپنا اختیار دیا کہ تم جو فیصلہ کرو مجھے منظور ہوگا،اس کے بعد جرگہ فیصلہ غلط کرتا ہے، تو اس بندے کو یہ فیصلہ ماننا لازم ہے؟
(1) صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً ایک شخص کی زمین تھی، اور اس کے کاغذات بھی اس کے پاس موجود تھے ،اس کے باوجود جرگہ نے مدعی سے گواہ طلب کیے بغیر،اورگواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ سے قسم لیے بغیر مدعی کے حق میں فیصلہ کیا ہے،تو ایسا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہے۔
(2) جرگہ کا ایسا فیصلہ ماننا بھی لازم نہیں ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن علي رضي الله عنه قال:بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية، وأمر عليهم رجلا من الأنصار، وأمرهم أن يطيعوه، فغضب عليهم، وقال: أليس قد أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: قد عزمت عليكم لما جمعتم حطبا وأوقدتم نارا، ثم دخلتم فيها. فجمعوا حطبا، فأوقدوا، فلما هموا بالدخول، فقام ينظر بعضهم إلى بعض، قال بعضهم: إنما تبعنا النبي صلى الله عليه وسلم فرارا من النار، أفندخلها؟ فبينما هم كذلك إذ خمدت النار، وسكن غضبه، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: (لو دخلوها ما خرجوا منها أبدا، إنما الطاعة في المعروف)."
(کتاب الأحکام، باب: السمع والطاعة للإمام ما لم تكن معصية، ج:6، ص:2612، دار اليمامة- دمشق)
النتف فی الفتاویٰ میں ہے:
"البينة على المدعي:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لو ترك الناس على دعواهم لأهلك بعضهم بعضا ولكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر."
(کتاب الدعویٰ و البینات،الحکم بشاهدین،ج2،ص786،مؤسسة الرسالة - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100589
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن