بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا جنت میں اہل جنت کا جسم ہوگا؟


سوال

جنّت میں انسان کا جسم رہےگایا پھر اس کی روح؟

جواب

 قیامت کے روز   بنص قرآن و حدیث   تمام جن انس کو  حساب کے لیے   جسم کے ساتھ  اٹھایا جائے گا ،   یعنی صرف روح کا حساب نہیں ہوگا، بلکہ روح مع الجسم کا حساب ہوگا، جس کے  بعد جنت میں داخلہ نصیب ہوگا،  اور وہاں بھی جسم باقی رہے گا، جیسا کہ مسند احمد کی روایت  میں ہے کہ  حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے دریافت  کیا کہ  : کیا ہم مرنے کے بعد ایک دوسرے کی زیارت کریں گے؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے  ارشاد فرمایا کہ:  روح ایک پرندہ ہے جو درخت پر لٹکی ہوئی ہے، یہاں تک کہ جب قیامت قائم ہوگی، تو ہر روح   اپنے ( متعلق) جسم  میں داخل ہوجائے گی۔

دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے، اور جہنمی جہنم میں، تو  ندا ہوگی کہ اے جنتیوں!   اللہ کے ہاں تم سے کیا ایک وعدہ ہے، اللہ چاہتا ہے کہ اسے پورا کردے! جنتی  دریافت کریں گے کہ کونسا وعدہ؟  اور کہیں گے کہ کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے؟ کیا ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا؟ کیا ہمیں جہنم سے بچا نہیں لیا؟ تو اللہ رب العزت اہل جنت سے حجاب  ہٹا دیں گے، پھر وہ اللہ رب العزت  کی زیارت کریں گے،  تو اہل جنت جتنی نعمتیں عطا ہوئی ہوں گے،  وہ سب باری تعالٰی کی زیارت کے مقابلہ میں ہیچ  ہوں گی۔

جبکہ دوسری طرف  جن کے نصیب میں جہنم  ہوگی - العیاذ باللہ -، وہ بھی   جسم کے ساتھ  جہنم میں جائیں گے، جہاں ان کا جسم فنا نہیں ہوگا، 

ارشاد باری تعالٰی ہے:

"وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ۔"

( الزمر: ٦٨)

ترجمہ: اور صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں وہ سب بےہوش ہوجائیں گے، سوائے اس کے جسے اللہ چاہے، پھر دوسری بار پھونکا جائے تو وہ سب لوگ پل بھر میں کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔

السنة لابن أبي عاصممیں ہے:

" ٨٩١ - ثنا محمد بن عوف، عن عمرو بن هشام الحراني، قال: أصبت في كتاب عتاب بن بشير، عن إسحاق بن راشد، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وأبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " كل ابن آدم تأكله الأرض، إلا عجب الذنب منه ينبت، ويرسل الله ماء الحياة، فينبتون فيه نبات الخضر، حتى إذا أخرجت الأجساد، أرسل الله الأرواح، وكان كل روح أسرع إلى صاحبه من الطرف، ثم ينفخ في الصور {فإذا هم قيام ينظرون} [الزمر: ٦٨]."

( باب الإيمان بالبعث وفيه أخبار قد ذكرناها في موضعها، ٢ / ٤٣٢، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

مسند الإمام أحمد بن حنبلمیں ہے:

" ٢٧٣٨٧ - حدثنا حسن، قال: حدثنا ابن لهيعة، قال: حدثنا أبو الأسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، أنه سمع درة بنت معاذ تحدث، عن أم هانئ، أنها سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم أنتزاور إذا متنا ويرى بعضنا بعضا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تكون النسم طيرا تعلق بالشجر، حتى إذا كان يوم القيامة دخلت كل نفس في جسدها."

( مسند القبائل، ومن حديث أم هانئ بنت أبي طالب، ٤٥ / ٣٨٣، ط: مؤسسة الرسالة )

السنة لابن أبي عاصممیں ہے:

" ٤٧٢ - ثنا هدبة بن خالد، ثنا حماد بن سلمة، ثنا ثابت، عن عبد الرحمن بن أبي ليلى، عن صهيب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في هذه الآية {للذين أحسنوا الحسنى وزيادة} [يونس: ٢٦] قال: " إذا دخل أهل الجنة الجنة، وأهل النار النار، نادوا: يا أهل الجنة إن لكم عند الله تعالى موعدا يريد أن ينجزكموه. قالوا: ما هو؟ ألم يبيض وجوهنا، ويدخلنا الجنة، ويجرنا من النار؟ فيكشف الله عنهم الحجاب، فينظرون إلى الله تعالى، فما شيء أعطوه أحب إليهم من النظر إليه، وهي الزيادة۔"

( باب في الزيادة بعد ذكر الحسنى، ١ / ٢٠٥، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

كتاب الروح لإبن القيممیں ہے:

" الثامن والثمانون: ما قد علم بالضرورة أن الرسول - صلى الله عليه وسلم - جاء به وأخبر به الأمة: أنه تنبت أجسادهم في القبور، فإذا نفخ في الصور رجعت كل روح إلى جسدها، فدخلت فيه، فانشقت الأرض عنه، فقام من قبره.

وفي حديث الصور : أن إسرافيل يدعو الأرواح، فتأتيه جميعا فيجمعها جميعا، فيعلقها في الصور، ثم ينفخ فيه، فيقول الرب جل جلاله: وعزتي، ليرجعن كل روح إلى جسده. فتخرج الأرواح من الصور مثل النحل قد ملأت ما بين السماء والأرض. فيأتي كل روح إلى جسده، فيدخل. ويأمر الله الأرض، فتنشق عنهم، فيخرجون سراعا إلى ربهم ينسلون، مهطعين إلى الداعي، يسمعون المنادي من مكان قريب، فإذا هم قيام ينظرون.

وهذا معلوم بالضرورة أن الرسول - صلى الله عليه وسلم - أخبر به، وأن الله سبحانه لا ينشئ لهم أرواحا غير أرواحهم التي كانت في الدنيا، بل هي الأرواح التي اكتسبت الخير والشر، أنشأ أبدانها نشأة أخرى، ثم ردها إليها."

( وأما المسألة التاسعة عشرة، فصل الحادي والثمانون: قوله - صلى الله عليه وسلم -: «الأرواح جنود مجندة، فما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف»، ٢ / ٥٣٦ - ٥٣٨، ط: دار عطاءات العلم - الرياض)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں