بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا اسلام میں عورت کا عورت سے چہرے کا پردہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کس قسم کا پردہ ہے اور کس قسم کی عورتوں سے ہے؟


سوال

 کیا اسلام میں عورت کا عورت سے چہرے کا پردہ ہے کہ نہیں ؟

 اگر ہے تو کس قسم کا پردہ ہے اور کس قسم کی عورتوں سے ہے ؟

کیوں کہ میں نے کچھ عالمات کو دیکھا ہے، جو مسلمان بے پردہ عورتوں سے یا ان عورتوں سے بھی چہرے کا پردہ کرتی ہیں، جو مردوں کے ساتھ بے پردہ اٹھتی بیٹھتی ہے۔

جواب

اسلام میں عورت کے لیے دوسری مسلمان عورت سے اتنا پردہ ہے، جتنا ایک مرد کا دوسرے مرد سے ہے ، ( ناف   سے لے کر گھٹنے تک ہے )یہاں تک تو دیکھنا بالکل   حرام ہے،  البتہ ستر کے علاوہ بقیہ بدن اگر فتنے یاشہوت کا خوف نہ ہوتو دیکھ سکتی ہے، یہ راجح قول ہے، البتہ دوسرا قول یہ ہے کہ عورت کے لیے دوسری مسلمان عورت سے بھی اتنا ہی پردہ ہے جتنا اپنے محارم  سے ہے یعنی  سر،بازو،پنڈلی اورچہرہ کی حدتک کھولنےکی گنجائش ہے،اس سے زیادہ کی نہیں  ہے۔

البتہ  غیرمسلم عورتوں بلکہ بےپردہ فاحشہ عورتوں سے بھی پردے کا حکم  ہے، حتی الامکان ان سے احتیاط برتنی چاہیے، اجنبی مردوں کی طرح ان کے سامنے بھی اپنی زینت کے اعضاء ظاہر نہیں کرنے چاہییں۔

باقی زیر نظر مسئلہ  میں اگر  کسی بھی مسلمان عورت کا اجنبی مرد کے سامنے اپنا چہرہ کھولنا اور غیر محرم اجنبی مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ تمام امور شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ فسق( گناہ )میں داخل ہے، لیکن مذکورہ قسم کی بے پردہ عورتیں  اگر خدانخواستہ کسی غیر اخلاقی اور فعل بد میں مبتلا نہ ہوں، تو ایسی عورتوں سے کسی مسلمان عورت /عالمہ وغیرہ کا چہرہ کا پردہ کرنا لازم نہیں ہے ، ہاں اگر خدانخواستہ کوئی مسلمان بے پردہ عورت اجنبی مرد وں سے بے پردہ اختلاط کے علاوہ دیگر برائی اور فحش کاموں میں بھی مبتلا ہو یعنی فاجرہ ہو ،اور یہ اندیشہ ہو کہ وہ پردہ دار عورت کے محاسن کو اجنبی مرد کے سامنے بیان کرے گی تو ایسی مسلمان عورت سے بھی پردہ کرنا چاہیے ، تاکہ آگے فتنے کا باعث نہ بنے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ."(سورة النساء،آیت نمبر:171)

ترجمہ:"اے اہل کتاب  تم اپنے دین میں حد سے مت نکلو اور خدا تعالیٰ کی شان میں غلط بات مت کہو ۔"(بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے :

3029 - حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا أبو أسامة، عن عوف، عن زياد بن الحصين، عن أبي العالية، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.......... قال: «يا أيها الناس إياكم والغلو في الدين، فإنه ‌أهلك ‌من ‌كان ‌قبلكم ‌الغلو في الدين."

ترجمہ:"عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’غلو سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے ہلاک کیا ہے۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وتنظر ‌المرأة ‌المسلمة من المرأة كالرجل من الرجل) وقيل كالرجل لمحرمه والأول أصح سراج (وكذا) تنظر المرأة (من الرجل) كنظر الرجل للرجل (إن أمنت شهوتها) فلو لم تأمن أو خافت أو شكت حرم استحسانا كالرجل هو الصحيح في الفصلين تتارخانية معزيا للمضمرات (والذمية كالرجل الأجنبي في الأصح فلا تنظر إلى بدن المسلمة) مجتبى...(وكل عضو لا يجوز النظر إليه قبل الانفصال لا يجوز بعده) ولو بعد الموت كشعر عانة وشعر رأسها وعظم ذراع حرة ميتة وساقها..."

و في رد المحتار:

"والخانية وغيرهما وقيل: إن الاختتان ليس بضرورة، لأنه يمكن أن يتزوج امرأة أو يشتري أمة تختنه إن لم يمكنه أن يختن نفسه كما سيأتي. وذكر في الهداية الخافضة أيضا لأن الختان سنة للرجال من جملة الفطرة لا يمكن تركها وهي مكرمة في حق النساء أيضا كما في الكفاية، وكذا يجوز أن ينظر إلى موضع الاحتقان لأنه مداواة ويجوز الاحتقان للمرض، وكذا للهزال الفاحش على ما روي عن أبي يوسف لأنه أمارة المرض هداية، لأن آخره يكون الدق والسل، فلو احتقن لا لضرورة بل لمنفعة ظاهرة بأن يتقوى على الجماع لا يحل عندنا كما في الذخيرة (قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب. (قوله سراج) ومثله في الهداية (قوله وكذا تنظر المرأة إلخ) وفي كتاب الخنثى من الأصل أن نظر المرأة من الرجل الأجنبي بمنزلة نظر الرجل إلى محارمه، لأن النظر إلى خلاف الجنس أغلظ هداية والمتون على الأول فعليه المعول (قوله حرم استحسانا إلخ) أقول: الذي في التتارخانية عن المضمرات فأما إذا علمت أنه يقع في قلبها شهوة أو شكت ومعنى الشك استواء الظنين فأحب إلي أن تغض بصرها هكذا ذكر محمد في الأصل، فقد ذكر الاستحباب في نظر المرأة إلى الرجل الأجنبي وفي عكسه قال: فليجتنب وهو دليل الحرمة، وهو الصحيح في الفصلين جميعا اهـ ملخصا ومثله في الذخيرة ونقله ط عن الهندية وفي نسخة التتارخانية التي عليها خط الشارح الاستحسان بالسين والنون بعد الحاء بدل الاستحباب بالباءين، والظاهر أنها تحريف كما يدل عليه سياق الكلام فيوافق ما في الذخيرة والهندية، فقول الشارح حرم استحسانا أوقعه فيه التحريف تأمل، ثم على مقابل الصحيح وجه الفرق كما في الهداية أن الشهوة عليهن غالبة، وهو كالمحقق اعتبارا، فإذا اشتهى الرجل كانت الشهوة موجودة في الجانبين، ولا كذلك إذا اشتهت المرأة لأن الشهوة غير موجودة في جانبه حقيقة واعتبارا فكانت من جانب واحد والمتحقق من الجانبين في الإفضاء إلى المحرم أقوى من المتحقق في جانب واحد اهـ (قوله والذمية) محترز قوله المسلمة (قوله فلا تنظر إلخ) قال في غاية البيان: وقوله تعالى - {أو نسائهن} [النور: 31]- أي الحرائر المسلمات، لأنه ليس للمؤمنة أن تتجرد بين يدي مشركة أو كتابية اهـ ونقله في العناية وغيرها عن ابن عباس، فهو تفسير مأثور وفي شرح الأستاذ عبد الغني النابلسي على هدية ابن العماد عن شرح والده الشيخ إسماعيل على الدرر والغرر: لا يحل للمسلمة أن تنكشف بين يدي يهودية أو نصرانية أو مشركة إلا أن تكون أمة لها كما في السراج، ونصاب الاحتساب ولا تنبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إليها المرأة الفاجرة لأنها تصفها عند الرجال، فلا تضع جلبابها ولا خمارها كما في السراج اهـ."

(کتاب الحظروالاباحة، ج:6، ص:371،ط: سعيد)

"المدخل الي دراسةالمذاهب الفقهيه" مىں ہے:

"المشقة تجلب التيسير؛ لأن ‌الحرج ‌مدفوع بالنص، ولكن جلبها التيسير مشروط بعدم مصادمتها نصًّا، فإذا صادمت نصًّا روعي النص دونها، والمراد بالمشقة الجالبة للتيسير المشقة التي تنفك عنها التكليفات الشرعية."

(المدخل الي دراسةالمذاهب الفقهيه، ص:339، ط: دار السلام)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں