بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اس زمانہ میں مباہلہ کرنا جائز ہے؟


سوال

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ’’مباھلہ‘‘  کیا تھا، آیا یہ مباھلہ اس زمانے میں بھی جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو صرف دینی کاموں میں جائز ہے یا دنیاوی کاموں  جائز ہے یا دونوں کاموں میں جائز ہے  ؟

جواب

ہر ایسا معاملہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی جس کا حق ہونا دلائلِ حقہ سے واضح ہوچکا ہو، اس کے باوجود مدِّ مقابل اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو، اور صاحبِ حق اپنی سچائی، یا دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کرنا چاہے تو شرعًا اس کی اجازت ہے؛ کیوں کہ مباہلہ  رسول کریم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد  کے زمانوں میں بھی مباہلہ کرنا ثابت ہے،  لہذا آج بھی اگر کوئی مباہلہ کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے،  تاہم کسی جھوٹے معاملہ میں دھوکا دینے کے لیے ہر گز مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حوالہ سے تجربہ نقل کیا ہے کہ ناحق مباہلہ کرنے والے کو مباہلہ  کے بعد سال بھر بھی جینا نصیب نہیں ہوتا، یعنی سال مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اللہ کی پکڑ کی لپیٹ میں  آجاتا ہے۔

زاد المعاد في هدي خير العباد لابن قيم الجوزية میں ہے:

"وَمِنْهَا: أَنَّ السُّنَّةَ فِي مُجَادَلَةِ أَهْلِ الْبَاطِلِ إِذَا قَامَتْ عَلَيْهِمْ حُجَّةُ اللَّهِ، وَلَمْ يَرْجِعُوا، بَلْ أَصَرُّوا عَلَى الْعِنَادِ أَنْ يَدْعُوَهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَةِ، وَقَدْ أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِذَلِكَ رَسُولَهُ، وَلَمْ يَقُلْ: إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لِأُمَّتِكَ مِنْ بَعْدِكَ، وَدَعَا إِلَيْهِ ابْنُ عَمِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ لِمَنْ أَنْكَرَ عَلَيْهِ بَعْضَ مَسَائِلِ الْفُرُوعِ، وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ، وَ دَعَا إِلَيْهِ الْأَوْزَاعِيُّ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ فِي مَسْأَلَةِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ، وَلَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَهَذَا مِنْ تَمَامِ الْحُجَّةِ".

(فَصْلٌ مَنْ عَظَّمَ مَخْلُوقًا بِحَيْثُ أَخْرَجَهُ عَنْ مَنْزِلَةِ الْعُبُودِيَّةِ الْمَحْضَةِ فَقَدْ أَشْرَكَ، ٣ / ٥٦١ - ٥٦٢، ط: مكتبة المنار الإسلامية، الكويت)

فتح الباري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة، وَ قد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ، ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ، وَ وَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ، وَ مِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَاتَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ، وَ وَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ".

(قَوْلُهُ قِصَّةُ أَهْلِ نَجْرَانَ، ٨ / ٩٥، ط: دار المعرفة - بيروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"فَإِنْ قُلْت: هَلْ يُشْرَعُ الدُّعَاءُ بِاللَّعْنِ عَلَى الْكَاذِبِ الْمُعَيَّنِ؟ قُلْت: قَالَ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ مِنْ الْعِدَّةِ: وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّهُ قَالَ: مَنْ شَاءَ بَاهَلْتُهُ أَنَّ سُورَةَ النِّسَاءِ الْقُصْرَى نَزَلَتْ بَعْدَ الَّتِي فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ، أَيْ: مَنْ شَاءَ الْمُبَاهَلَةَ أَيْ: الْمُلَاعَنَةَ بَاهَلْتُهُ،  وَكَانُوا يَقُولُونَ إذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ بَهْلَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِ مِنَّا، قَالُوا: هِيَ مَشْرُوعَةٌ فِي زَمَانِنَا أَيْضًا اهـ".

(باب اللعان، شرائط وجوب اللعان، ٤ / ١٤٧، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَذَكَرَ فِي الْبَحْرِ مَا يَدُلُّ عَلَى الْجَوَازِ بِمَا فِي عِدَّةِ غَايَةِ الْبَيَانِ مِنْ أَنَّ الْمُبَاهَلَةَ مَشْرُوعَةٌ فِي زَمَانِنَا وَهِيَ الْمُلَاعَنَةُ، كَانُوا يَقُولُونَ إذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ: بَهْلَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِ مِنَّا".

(باب اللعان، ٣ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں