بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا انسان مرنے کے بعد اپنے فوت شدہ رشتہ داروں سے ملتا ہے؟


سوال

انسان کے مرنے کے بعد اس کے فوت شدگان رشتہ دار اس کا استقبال کرتے ہیں،  اس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں،  اگر ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں؟

جواب

اگر سوال سے مقصود انسان کے مرنے کے بعد دیگر انتقال کرنے والے رشتہ داروں سے ملنے سے متعلق پوچھناہے، تو ملحوظ رہے کہ ہر نیک مسلمان مرنےکے بعد اپنے پہلے سے انتقال کرجانے والے نیک مسلمانوں سے ملتا ہے، اور وہ باقاعدہ مرنے والے کا استقبال کرتے ہیں،استقبال کرنے کے بعد ان سے اپنے زندہ رشتہ داروں سے متعلق احوالِ غم وخوشی بھی پوچھاجاتا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن نفس المؤمن إذا قبضت تلقاها أهل الرحمة من عباد الله، كما تلقون البشير من أهل الدنيا، فيقولون: أنظروا صاحبكم يستريح، فإنه في كرب شديد، ثم يسألونه: ما فعل فلان، وفلانة هل تزوجت؟ فإذا سألوه عن الرجل قد مات قبله، فيقول: أيهات، قد مات ذاك قبلي. فيقولون: إنا لله وإنا إليه راجعون، ذهب به إلى أمه الهاوية، بئست الأم، [ص:54] وبئست المربية» . وقال: «إن أعمالكم تعرض على أقاربكم، وعشائركم من أهل الآخرة، فإن كان خيرا فرحوا واستبشروا، وقالوا: اللهم هذا فضلك ورحمتك، فأتمم نعمتك عليه، وأمته عليها. ويعرض عليهم عمل المسيء، فيقولون: اللهم ألهمه عملًا صالحًا ترضى به، وتقربه إليك».

(المعجم الاوسط للطبرانى، باب الالف، من اسمه احمد، رقم الحديث:148، ج:1، ص:53، ط:مكتبة الحرمين)

ترجمہ: "حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے، تو خدا کے مرحوم بندے (جن کا پہلے انتقال ہو گیا تھا) اس سے آگے بڑھ کر اس طرح ملتے ہیں، جیسے دنیا میں کسی خوش خبری لانے والے سے ملا کرتے ہیں، پھر (ان میں سے بعض) کہتے ہیں، ذرا اس کو مہلت دو کہ دم لے لے،  کیوں کہ یہ (دنیا میں) بڑے کرب میں تھا، اس کے بعد اس سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ کیا اس نے نکاح کرلیا ہے؟ پھر اگر ایسے شخص کا حال پوچھتے ہیں، جو اس شخص سے پہلے مر چکا ہے، اور اس نے کہہ دیا کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا ہے، تو  " إنا للّٰه و إنا إلیه راجعون"  پڑھ کر کہتے ہیں کہ بس اس کو اس کے ٹھکانے یعنی دوزخ طرف لے جایا گیا ہے، وہ تو جانے کی بھی بری جگہ ہے، اور رہنے کی بھی بری جگہ ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے ان رشتے داروں اور خاندان والوں کے سامنے، جو آخرت (عالم برزخ) میں ہیں، پیش کیے  جاتے ہیں، اگر نیک عمل ہو، تو  وہ خوش اور  بشاش ہوتے ہیں، اور کہتے  ہیں کہ اے اللہ! آپ کا فضل اور رحمت ہے، پس اپنی یہ نعمت اس پر پوری  کیجیے، اور اسی پر اس کو موت دیجیے، اور ان پر گناہ گار شخص کا عمل بھی پیش ہوتا ہے، تو کہتے ہیں کہ اے اللہ! اس کے دل میں نیکی ڈال دے، جو تیری رضا اور قرب کا سبب ہو جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں