بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا انسان کا چاند پر جانا ممکن ہے؟کیا یہ سورہ رحمن کی آیت 33 کے منافی نہیں


سوال

 اسلامی نقطہ نظر سےکیا انسان چاند پر اترا ہے یا نہیں اتر سکتا؟ نیز سورہ رحمن کی اس آیت کاکیامطلب نکلتا ہے" اے گروہ جن و انس،ا گر تم زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو ،نہیں بھاگ سکتے، اِس کے لیے بڑا زور چاہیے۔"

جواب

قرآن کریم کی آیت ہے :

" يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ." ﴿الرحمن: ٣٣﴾

ترجمہ:ا"ے گروہ جن اور انسانوں کے اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ، تو نکلو،بدون زور کے نہیں نکل سکتے"( بیان القرآن)

اس آیت  کی تفسیر  کے بارے میں  مفسرین  سے  چند  اقوال منقول ہیں:

1۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ  اگرتم موت سے بھاگنے کے لیے آسمان اور زمین کے اطراف سے بھی نکل جاؤ تو بھاگ جاؤ یا نکل جاؤ؛ موت تو جہاں کہیں آنی ہی ہے۔

2۔ایک تفسیر کے مطابق اس خطاب کا تعلق آخرت سے ہے کہ جب  انسان اور جنات کے متعلق عذاب کا فیصلہ ہوجائے گا،انسان اور جن عذاب سے بھاگنے کی کوشش کریں گے، لیکن وہ فرشتوں کی صفوف کو آسمان اور زمین کے اطراف میں احاطہ کیے ہوئے پائیں گے۔

3۔ایک تفسیر میں ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حکم سے فرار نہیں ہے،جہاں کہیں انسان یا جن جاتا ہے وہاں اللہ تعالی کا حکم ہے، وہاں اللہ تعالی کی سلطنت ہے، وہاں اللہ تعالی کی ملوکیت ہے۔

مذکورہ آیت کی تفاسیر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر جدید آلات اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ انسان چاند پر پہنچ  جائے تو  بھی اس آیت کے منافی نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالی کا حکم اور سلطنت وہاں بھی موجود ہے،چنانچہ انسان روئے زمین سے نکلنے کے بعد اور  خلا میں یا چاند یا کسی دوسرے سیارے پر پہنچنے کے بعد بھی احکامِ شرعیہ کا مکلف ہوگا ۔

تفسیر بغوی میں ہے:

"{يا معشر الجن والإنس إن استطعتم أن تنفذوا} ، أي تجوزوا وتخرجوا {من أقطار السماوات والأرض} أي من جوانبهما وأطرافهما،{فانفذوا}معناه إن استطعتم أن تهربوا من الموت بالخروج من أقطار السموات والأرض: فاهربوا واخرجوا منها. [والمعنى] حيثما كنتم أدرككم الموت، كما قال جل ذكره: "أينما تكونوا يدرككم الموت"، (النساء-78)."

(الرحمن،ج:7،ص:448،ط:دار الطیبۃ للنشر والتوزیع)

تفسیرِ رازی میں ہے:

"المسألة الثالثة: هذا الخطاب في الدنيا أو في الآخرة؟ نقول: الظاهر فيه أنه في الآخرة، فإن الجن والإنس يريدون الفرار من العذاب فيجدون سبعة صفوف من الملائكة محيطين بأقطار السموات والأرض، والأولى ما ذكرنا أنه عام بمعنى لا مهرب ولا مخرج لكم عن ملك الله تعالى، وأينما توليتم فثم ملك الله، وأينما تكونوا أتاكم حكم الله."

(الرحمن،ج:29،ص:361،ط:دار احياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں