بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا امام جعفرؒامام اعظم ابو حنیفہؒ کے استاذ تھے؟ نیز چند متعلقہ ابحاث


سوال

1) امام ابو حنیفہ، امام جعفر الصادق رحمہما اللہ کے شاگرد تھے؟

2) کیا امام جعفر الصادق رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ گمان رکھتے تھے کہ ابو حنیفہ(رحمہ اللہ ) حدیث کو چھوڑ کر اپنے اجتہاد پر عمل کرتے تھے اور اسے مسئلے میں کیا ان دونوں شخصیات کا مناظرہ بھی ہوا تھا؟ اور امام جعفر نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مسائل بتانے سے منع کیا تھا؟

3) کیا امام ابو حنیفہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتا تو میں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کرتا؛ کیوں کہ  وہ باغی تھے "تمہید ابو شکور سالمی" میں یہ بات مذکور ہے کیا  یہ بات درست ہے؟

4)براہ کرم اس کےساتھ ساتھ اس کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں بھی کچھ بتادیں-

جواب

1۔واضح رہے کہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ  اہل بیت  میں سے بڑے محدث تھے، اور اہل سنت والجماعت سے تھے، اور حضرت امام  ابو حنیفہ  رحمہ اللہ تعالی کے ہم عمر تھے، دونوں ایک  ہی سال  80 ہجری میں پیدا ہوئے تھے، اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حضرت جعفر صادق کے والد  حضرت باقر رحمہ اللہ کے شاگرد تھے، لیکن حضرت باقر رحمہ اللہ کے بعد کچھ مجالس میں ان  کے بیٹے جعفر صادق کے مجالس میں بھی حاضر ہوئے ہیں ، اس بنا پر بعض مؤرخین نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ  کے اساتذہ میں حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالی  کو شمار  کیا ہے۔

2) ایسا ایک واقعہ  ابونُعيم اصفهاني ؒ نے اپني كتاب "حِلية الأولیاء "میں ذکر کیا ہے ،جس میں یہ بات مذکورہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی باہم ملاقات ہوئی ،جس میں دونوں حضرات نے ایک دوسرے سے کچھ سوالات وجوابات کیے ،جس میں یہ بھی درج ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ،امام جعفر صادق ؒ کے سوالات کے عقلی طور پر جوابات نہ دے سکے،  جس سے نالاں ہو کر قیاس اور شرعی مسائل میں رائے زنی کرنے سے حضرت امام جعفر کا منع کرنا منقول ہے، لیکن ائمۂ  جرح و تعدیل  نے اس واقع کے  راوی "عمرو بن جُمیح "  پر جرح  کی ہے ،جس کے الفاظ یہ ہیں کہ "عمروبن جُمیح "مسجد میں اس قسم کے جھوٹے  واقعات بیان کیا کرتا تھا، اور  وہ انتہائی جھوٹا، اور خبیث آدمی تھا ،امام نسائی سے اس کے بارے میں  "متروك الحدیث " جیسے الفاظ منقول ہیں، نیز  اس راوی کو  "لیس بثقة، و غير مأمون"وغیرہ جیسے الفاظ سے بھی محدثین نے مطعون کیا ہے    ۔(الکامل للضعفاء  لابن ِ عدیؒ)

اس لیے ایسے واقعات کا کوئی اعتبار نہیں ،بلکہ ائمۂ  اہلِ بیت  سے امام  اعظم ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں توصیف وثناء کے الفاظ منقول ہیں ،جیسا کہ   علامہ ابنِ حجر الہیثمی ؒ نے  "الخیرات الحسان" میں صحیح واقع نقل کیا ہے کہ حضرت امام باقر علیہ الرحمہ نے امام صاحب ؒ سے  فرمایاکہ کیا آپ  قیاس کے ذریعے ہمارے نانا (ﷺ) کی احادیث کی مخالفت کرتے ہیں ،جس کے جواب میں امام صاحب نے کچھ سوالات کر کے خود ہی امام باقرؒ سے ان سوالوں کے جوابات لیے ،جس پر امام صاحب نے ان مسائل میں  اپنے مذہب کی موافقت  جتلائی تو امام باقرؒ آپ ؒ  کے تقفہ اور فقاہت کی داد  دیے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی جگہ سے اٹھ کر آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا ۔

اسی طرح  حافظ ابنِ عبد البر ؒ نے " الانتقاء" میں اسی طرح کا واقع نقل کیا ہے  جس میں امام باقر ؒسے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے بار ے میں  " فقال  أبو جعفر: ما أحسن ‌هديه وسمته وما أكثر فقهه"اس کی رہنمائی اور کردار کتنا اچھا ہے اور اس کی فقہ میں  کتنی فراوانی ہے"جیسے الفاظ منقول ہیں ۔

3)یہ قول  ابو شکور عبد السعید السالمی ؒ "نے  اپنی کتا ب  "التمہید فی بیان التوحید" کے صفحہ (326 ،ط:داربن حزم ) میں بغیر سند کے  الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

فائدہ:اس بات کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ  اہل سنت والجماعت کے نزدیک  محارباتِ علی و معاویہ (رضی اللہ عنھما )میں حضرت علی   رضی الله عنہ خلیفۂ برحق اور امام عادل تھے ،اور  مبنی بر صواب و حق تھے ،اور  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  اور ان کے ساتھی اجتہادی خطا  پر تھے، اس لیے   جو حق پر ہو اور خلیفۂ بر حق ہو ، اس کا ساتھ دینا لازم وضروری ہوتا ہے، اس لیے آپ نے ایسی بات فرمائی ،اس سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس قول کی آڑ میں حضرت ِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان ومقام میں کسی قسم کی تنقیص و توہین کی مرتکب ہے ۔

4) "ابو شکور سالمی ؒ"اور ان کی تصنیف "التمہید فی بیان التوحید " کا مختصر تعارف ۔

ابو شکور سالمی ؒ کا تعارف :

آپ کا نام محمد والد کا نام عبد السعید /عبد السید ہے ،آپ کی شہرت "ابو شکور سالمی "کے نام سے ہی ہے ،آپ کی تاریخ ِ پیدائش   بارے میں تو کسی کتاب میں تذکرہ   حتمی طور نہیں ملا ،البتہ  براکلمن نے تاریخ اللغۃ العربیہ  میں آپ کو پانچویں صدی کے علماء میں شمار کیا ہے ،آپ ؒ سنی ،حنفی  ، ماتریدی تھے ۔

آپ  کے حالات زندگی شیوخ و تلامذہ کے نام   تو زیادہ کتابوں میں نہیں ملتے ،البتہ آپ کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے ،کہ آپ ؒاپنے زمانے کے بہت بڑے مناظر تھے ،اہلِ باطل سے آپ کے مناظرے ہوا کرتے تھے، جس میں اپنے مد مقابل کو مسکت جواب دیتے تھے۔ 

"التمہید فی بیان التوحید " کا تعارف :

آپ ؒ کی  مذکورہ تصنیف علم العقائد، علم الکلام   دونوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،اس میں عقل، روح وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے ،اور   اس کتاب میں آپ نے معرفت وتوحید کے  اصول واضح طور پر لکھ د یے ہیں ۔(اللھم انفعنا بعلومہ ۔آمین)

ابو حنیفہ لابی زہرۃ میں ہے:

" وكما كان لأبي حنيفة اتصال علمى بالباقر، وكان له اتصال بابنه جعفر الصادق، وقد كان في سن أبي حنيفة رضي الله عنهما، فقد ولدا في سنة واحدة، ولكنه مات قبل أبي حنيفة، فقد توفى سنة ١٤٨ أي قبل أبي حنيفة بنحو سنتين، وقد قال أبو حنيفة فيه والله ما رأيت أفقه من جعفر بن محمد الصادق ولقد جاء في المناقب الموفق المكر أن أبا جعفر المنصور قال يا أبا حنيفة إن الناس قد فتنوا بجعفر بن محمد فهمي له من المسائل الشداد، فهيا له أربعين مسالة، وإن أبا حنيفة يقول عندما دخل على أبي جعفر وهو بالحيرة وأتيته فدخلت عليه، وجعفر بن محمد جالس عن يمينه فلما بصرت به دخلتنى من الهيبة لجعفر بن محمد الصادق مالم يدخلني لأبي جعفر، فسلمت عليه، وأوماً فجلست ثم التفت إليه، فقال: يا أبا عبد الله هذا أبو حنيفة؟ فقال نعم. ثم التفت إلى فقال يا أبا حنيفة ألق على أبي عبد الله من مسائلك.. فجعلت ألقى عليه فيجيبنى، فيقول: أنتم تقولون كذا، وأهل المدينة يقولون كذا، ونحن نقول  كذا، فربما تابعنا وربما تابعهم، وربما خالفناء حتى أنيت على الأربعين مسالة ثم قال أبو حنيفة: إن أعلم الناس أعلمهم باختلاف الناس وهذه الرواية تنبئ عن أن أبا حنيفة أحس بمنزلة جعفر الصادق عند أول لقاء وأن جعفراً كان له رأى فى الفقه ولاشك أن ذلك كان قبل أن يكون ما بين المنصور والعلويين من عداوة ولقد عد العلماء جعفراً هذا من شيوخ أبي حنيفة، وإن كان في سنه."

(ابو حنيفة حياته و عصره، آراؤه و فقهه، المبحث شيوخ ابي حنيفة، ص:65، 66، ط:دار لفكر العربي)

الامام  الصادق  ؒ  لابی زہرہ میں ہے:

 "إن للإمام الصادق فضل السبق، وله على الأکابر فضل خاص، فقد کان أبو حنيفة يروي عنه، ويراه أعلم الناس باختلاف الناس، وأوسع الفقهاء إحاطة، وکان الإمام مالک يختلف إليه دارساً راوياً، وکان له فضل الأستاذية على أبي حنيفة فحسبه ذلک فضلاً. وهو فوق هذا حفيد علي زين العابدين الذي کان سيّد أهل المدينة في عصره فضلاً وشرفاً وديناً وعلماً، وقد تتلمذ له ابن شهاب الزهري، وکثير من التابعين، وهو ابن محمد الباقر الذي بقر العلم ووصل إلى لبابه، فهو ممن جعل الله له الشرف الذاتي والشرف الإضافي بکريم النسب، والقرابة الهاشمية، والعترة المحمديةَ."

(الامام الصادق لابي زهرة، ص:90، ط:دار الفكر العربي)

عقود الجمان فی مناقب لامام الاعظم النعمان رحمہ اللہ  میں ہے:

"جابر بن يزيد بن الحارث الجعفى، أبو عبد الله الكرخي . جامع بن أبي مرداس و راشد الكاهلى الصيرفى، الكوفى جامع بن شداد المحاربي - بضم ب بن كيان الميم ، ويقال : الجعفى ، أبو صخرة الكوفى . جبلة بن سحيم - بمهملتين مصغر - الكوفى الجراح بن منهال - " بكسر الميم وسكون النون وباللام" - أبو العطوف يفتح الطاء المهملتين و بالقاء الجزري . جعفر بن محمد بن على من الحسين بن على بن أبي طالب الهاشمي، المعروف بالصادق . جواب بالواو المشددة وآخره موحدة - ابن عبيد الله ، التيمي . جوبير - تصغير جابر، ويقال اسمه «جابر» و جويبر ، لقب - ابن سعيد الأزدي أبو القاسم البلخي ، نزيل الكوفة . راوى التفسير ."

(شيوخ ابي حنيفة رحمه الله، حرف الجيم، ص:68، ط:مكتبة الإيمان)

البدور المضية في تراجم الحنفية میں ہے:

"وقال الخطيب: لا أعلم لصاحب هذا القول مُتابعًا، ثم روي بسنده عن أبي نعيم، أن أبا حنيفة ولد سنة ثمانين، وكان له يوم مات سبعون سنة، ومات في سنة خمسين ومائة، وهو النعمان بن ثابت.وروى عنه بسند آخر، أنه قال: ولد أبو حنيفة سنة ثمانين بلا مائة، ومات سنة خمسين ومائة، عاش سبعين سنة.واختلف في الشهر الذي مات فيه، فقال بعضهم: في شعبان، وقال بعضهم: في رجب، وعن أبي يوسف: أنه مات في النصف من شوَّال.وكانت وفاته بمدينة "بغداد"، ودفن بالجانب الشرقي منها في "مقبرة الخيزران"، وقبره هُناك ظاهر معروف مقصود بالزيارة."

 (‌‌‌‌الباب السادس في سيرة الإمام الأعظم، أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، الفصل الأول في نسبه وولادته وصفته وشيوخه وتلاميذه، ذكر مولده ووفاته، وصفته، ج:1، ص:252، ط:دار الصالح القاهرة)

الانتقاء لابن عبدالبر میں ہے :

"حدثنا حكم بن منذر رحمه الله قال نا أبو يعقوب يوسف بن أحمد قال نا أبو العباس محمد بن الحسن بن الفارض قال نا على بن عبد العزيز قال نا أبو إسحق الطائفى قال نا عمر بن هرون عن أبي حمزة الثماليقال كنا عند أبي جعفر محمد بن علي فدخل عليه أبو حنيفة فسأله عن مسائل فأجابه محمد ابن علي ثم خرج أبو حنيفة فقال لنا أبو جعفر ما أحسن ‌هديه وسمته وما أكثر فقهه."

(‌‌أبو جعفر محمد بن على بن حسن،ص:124 ،ط:دارالكتب  العلمية)

 حلیۃ الاولیاء للاصفہانی میں ہے :

"• حدثنا عبد الله بن محمد ثنا الحسن بن محمد ثنا سعيد بن عنبسة ثنا عمرو ابن جميع. قال: دخلت على جعفر بن محمد أنا وابن أبي ليلى وأبو حنيفة.

وحدثنا محمد بن علي بن حبيش حدثنا أحمد بن زنجويه حدثنا هشام بن عمار حدثنا محمد بن عبد الله القرشي بمصر ثنا عبد الله بن شبرمة. قال: دخلت أنا وأبو حنيفة على جعفر بن محمد. فقال لابن أبي ليلى: من هذا معك؟ قال  هذا رجل له بصر ونفاذ في أمر الدين. قال: لعله يقيس أمر الدين برأيه. قال:

نعم! قال فقال جعفر لأبي حنيفة: ما اسمك؟ قال: نعمان. قال يا نعمان هل قست رأسك بعد؟ قال: كيف أقيس رأسي؟! قال: ما أراك تحسن شيئا، هل علمت ما الملوحة في العينين، والمرارة في الأذنين، والحرارة في المنخرين والعذوبة في الشفتين. قال: لا! قال: ما أراك تحسن شيئا، قال: فهل علمت كلمة أولها كفر وآخرها إيمان. فقال: ابن أبي ليلى: يا ابن رسول الله أخبرنا بهذه الأشياء التي سألته عنها. فقال: أخبرني أبي عن جدي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: «إن الله تعالى بمنه وفضله جعل لابن آدم الملوحة في العينين لأنهما شحمتان ولولا ذلك لذابتا، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل المرارة في الأذنين حجابا من الدواب فإن دخلت الرأس دابة والتمست إلى الدماغ فاذا ذاقت المررة التمست الخروج، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل الحرارة في المنخرين يستنشق بهما الريح ولولا ذلك لأنتن الدماغ، وإن الله تعالى بمنه وكرمه ورحمته لابن آدم جعل العذوبة في الشفتين يجد بهما استطعام كل شيء ويسمع الناس بها حلاوة منطقه». قال: فأخبرني عن الكلمة التي أولها كفر وآخرها إيمان.

فقال: إذا قال العبد لا إله فقد كفر فإذا قال إلا الله فهو إيمان. ثم أقبل على أبي حنيفة فقال: يا نعمان حدثني أبي عن جدي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أول من قاس أمر الدين برأيه إبليس. قال الله تعالى له اسجد لآدم فقال: {(أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين)} فمن قاس الدين برأيه قرنه الله تعالى يوم القيامة بإبليس لأنه اتبعه بالقياس». زاد ابن شبرمة في حديثه.

ثم قال جعفر: أيهما أعظم قتل النفس أو الزنا؟ قال: قتل النفس. قال: فإن الله عز وجل قبل في قتل النفس شاهدين ولم يقبل في الزنا إلا أربعة. ثم قال:

أيهما أعظم الصلاة أم الصوم؟ قال: الصلاة. قال: فما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة. فكيف ويحك يقوم لك قياسك! اتق الله ولا تقس الدين برأيك  ."

(‌‌جعفر بن محمد الصادق،ج:3،ص:197 ،ط:مطبعة السعادة)

الکامل للضعفاء لابن عدی میں ہے :

"عمرو بن جميع قاضي حلوان، يكنى أبا المنذر.

حدثنا ابن حماد، حدثنا عباس، عن يحيى، قال: شيخ، يقال له: عمرو بن جميع كان ببغداد وقع إلى حلوان ليس بثقة، ولا مأمون.

حدثنا ابن حماد، قال: حدثنا عباس، قال: سمعت يحيى يقول: عمرو بن جميع ‌صاحب ‌الأعمش وليث بن أبي سليم كان يحدث في المسجد وكان كذابا خبيثا، يقال له: الحلواني فكان قاضي حلوان.

قال النسائي عمرو بن جميع متروك الحديث."

("عمرو بن جميع قاضي حلوان، يكنى أبا المنذر،ج:6،ص:196 ،ط:دارالكتب العلمية)

الخیرات الحسان میں ہے :

"وأجتمع في المدينة بمحمد بن الحسن بن علي رضي الله الله عنهم عنهم ، فقال له : أنت الذي خالفت أحاديث جدي صلى الله عليه وسلم بالقياس ؟ فقال : معاذالله من ذلك ! أجلس ، فإنَّ لك حرمة كحرمة جدك عليه أفضل الصلاة والسلام ،

فجلس ، وجثى أبو حنيفة بين يديه ، فقال له : الرَّجلُ أضعف أم المرأة ؟ قال : المرأة ، قال : المرأة كم سهمها ؟ قال : نصف سهم الرجل ، قال : لو قلت بالقياس ، لقلبت الحكم ، ثم قال : الصَّلاة أفضل أم الصوم ؟ قال : الصلاة ،

قال : لو قلت بالقياس ؛ لأمرت الحائض بقضائها دون قضائه ، ثم قال : البول نجس أم النطفة ؟ قال : البول ، قال : لو قلتُ بالقياس ؛ لأوجبت الغسل من البول دون المني ، معاذ الله أن أقول على غير الحديث ،بل أخدم قوله ، فقام وقبل وجهه ."

(الفصل الثانی والعشرون ،ص:128،ط:دارالھدی والرشاد)

الجرح والتعدیل لابن ابی  حاتم میں ہے :

"‌النعمان ‌بن ‌ثابت أبو حنيفة مولى بني تيم الله [بن ثعلبة - 4] روى عن عطاء ونافع وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وسماك بن حرب وحماد بن أبي سليمان روى عنه هشيم وعباد بن العوام وابن المبارك ووكيع وعبد الرزاق وابو نعيم، ثم تركه ابن المبارك بأخرة سمعت أبي يقول ذلك."

(النعمان ‌بن ‌ثابت أبو حنيفة مولى بني تيم الله،ج:8،ص:449 ،ط:دارإحياء التراث العربي)

التمہید فی بیان التوحید  لابی شکور السالمی الحنفی ؒ میں ہے :

"وروي عن أبي حنيفة رحمه الله أنه قال لأصحابه: أتدرون لم تبعضنا أهل الشام؟ فقالوا: لا. قال: لأنا نعتقد بأنا لو كنا حضورًا لكنا نعين عليا رضي الله عنه على معاوية، ونقاتل معاوية۔۔۔ ثم نقول بأن الباغي لا يكفر ولا يفسق بدليل قوله تعالى: ﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا، فالله تعالى سمى كلتي الطائفتين مؤمنا وهما جند معاوية وعلي رضي الله عنه. وروي عن النبي عليه السلام أنه قال للحسن: «إن ابني هذا سيد وسيصلح الله تعالى به بين فئتين من المؤمنين فالنبي عليه السلام جعل الفئتين مؤمنين " وفي هذا دليل على أن معاوية كان له حق الخلافة بعد علي رضي الله عنه، لأن النبي عليه السلام جوز الصلح فيما بينهما، وكان عادلاً بعد الصلح مع الحسن. وقد قلنا :" إن الباغي لا يفسق لأن شهادته مقبولة بالاتفاق. والثاني أن الباغي مئول في دعواه لأن حد البغي أن يدعي الإمارة مع شبهة الدعوى. وكانت لهم " شبهة الدعوى فتأولوا في ذلك وأخطأوا في تأويلهم، وخطؤهم ما كان من الكبائر  فرضي الله عنه. حتى يوجب الفسق والكفر."

(القول فی خروج معاویۃ (رضی اللہ عنہ)،ص:326 ،ط:داربن حزم)

شرح العقائد النسفية میں ہے:

"وما وقع من المخالفات و المحاربات لم يكن من نزاعٍ في خلافته، بل عن خطاء في الإجتهاد".

و في هامشه:

"والمقصود منه دفع الطعن من معاوية و من تبعه من الأصحاب و عن طلحة و زبير و عائشة؛ فإن الواجب حسن الظن بأصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم و اعتقاد براءتهم عن مخالفة الحق؛ فإنهم أسوة أهل الدين و مدار معرفة الحق و اليقين".

(ص: :152، ط: المصباح)

النبراس على شرح عقائدمیں ہے:

"خصه بالذكر؛ لأن حربه أشهر من حرب الباقين؛ و الخطاء هو الاستعجال في طلب قصاص عثمان رضي الله عنه زعماً أن التاخير يوجب جرءة العوام على الأكابر، و كثيراً ما يفوت المطلوب..." الخ

(ص: 502، ط: رشيدية)

الشفاء بتعریف حقوق المصطفی للقاضی عیاض المالکی ؒ میں  ہے :

"الفصل السادس توقير أصحابه وبرهم ومعرفة حقهم:

"ومن توقيره وبره صلى الله عليه وسلم توقير أصحابه وبرهم، ومعرفة حقهم، والاقتداء بهم، وحسن الثناء عليهم، والاستغفار لهم، والإمساك عما شجر بينهم «1» ومعاداة من عاداهم، والإضطراب عن أخبار المؤرخين، وجهلة الرواة، وضلال الشيعة والمبتدعين ‌القادحة في أحد منهم.. وأن يلتمس لهم فيما نقل عنهم من مثل ذلك فيما كان بينهم من الفتن أحسن التأويلات «2» . ويخرج لهم أصوب المخارج، إذهم أهل ذلك. ولا يذكر أحد منهم بسوء، ولا يغمص «3» عليه أمر.. بل تذكر حسناتهم وفضائلهم وحميد سيرهم.. ويسكت عما وراء ذلك۔۔۔۔كما قال صلى الله عليه وسلم «1» : «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا»."

(‌‌الفصل السادس توقير أصحابه وبرهم ومعرفة حقهم،ج:2،ص:116 ،ط:دارالفيحاء)

" كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون"میں ہے ":

"‌‌التمهيد، في بيان التوحيد:

لأبي شكور: محمد بن عبد السيد بن شعيب الكشي، السالمي، الحنفي.

أوله: (الحمد لله ذي المن والآلاء … الخ) .

وهو: مختصر في أصول المعرفة والتوحيد. ذكر فيه: أن القول في العقل كذا، وفي الروح كذا … إلى غير ذلك.

فأورد: ما يجوز كشفه، من علم الكلام."

(‌‌التمهيد، في بيان التوحيد،ج:1،ص:484،ط:دارإحياء التراث العربي)

سلم الوصول إلى طبقات الفحول میں ہے :

"‌ الإمام ‌أبو ‌شكور محمد بن عبد السيد بن سَعيد الكَشِّيّ السَّالميّ الحنفي (5)، صاحب كتاب "التّمهيد."

(الإمام أبو شكور محمد بن عبد السيد بن سَعيد الكَشِّيّ السَّالميّ الحنفي،ج:3،ص:174،ط:مکتبة إرسيكا)

 الأثمار الجنية في أسماء الحنفية میں ہے :

"محمد بن عبد السيد بن شعيب السّالميّ  أبو شكور الكشيّ. ۔۔له (التمهيد في أصول التوحيد)."

(محمد بن عبد السيد بن شعيب السّالميّ،ج:2،ص:605،ط:مركزالبحوث والدراسات الاسلاميه)

" موجز دائرة المعارف الإسلامية"میں ہے :

"ومن ممثلى مدرسة الماتريدى النابهين فى أواخر القرن (الخامس الهجرى/ الحادى عشر) الميلادى أبو شكور السَّلْمى الكَشِّى مؤلف كتاب "التمهيد فى بيان التوحيد"، وأبو اليسر البَزْدوى (ت 593 هـ/ 1099 م) قاضى سمرقند ومؤلف كتاب "أصول الدين."

(‌‌الماتريدية،ج:29،ص:8963،ط:مرکزالشارقۃ للابداع الفکری)

خزينة التراث "میں ہے :

"الفن:عقائد

عنوان المخطوط:‌‌التمهيد في بيان التوحيد

اسم المؤلف:محمد بن عبد السعيد بن شعيب، السالمي

اسم الشهرة:السالمي

اسم الشهرة:ابو شكور السالمي."

(‌‌التمهيد في بيان التوحيد،ج:115،ص:441،ط:بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں