بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کا کرسی پر بیٹھ کر امامت درست ہے؟


سوال

میں نے پڑھا تھا کہ ایسا امام جو کہ رکوع اور سجدہ صحیح طرح سے ادا نہ کرسکے اس کی اقتدا  میں نماز نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی ایک بہت بڑے عالم ہیں، ان کی ایک ویڈیو میں نے دیکھی ہے کہ وہ عیدالاضحی کی نماز پڑھا رہےہیں اور رکوع اور سجدہ وہ کرسی پر بیٹھ کر ادا کررہے ہیں، اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں تاکہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے بدگمانی پیدا نہ ہو۔

جواب

ہماری اطلاعات    کے  مطابق حضرت  مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم  سجدہ باقاعدہ زمین پر کرتے ہیں جب کہ گھٹنوں کی تکلیف کے باعث قعدہ اولی اور قعدہ  اخیرہ کرسی پر کرتے ہیں،  پس جو شخص زمین پر سجدہ  کرتا ہو، اس شخص کی امامت شرعًا  درست ہوتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں آخری مرتبہ  امامت  اس طور پر فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، اور  بیٹھ کر رکوع فرماتے تھے،  اور سجدہ  زمین پر کرتے تھے، جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مکبر کے فرائض ادا  کر رہے تھے۔

پس صورت مسئولہ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی امامت درست ہے۔

     فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) ولو مع متوضئ بسؤر حمار مجتبى (وغاسل بماسح) ولو على جبيرة (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم  تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً".

(كتاب الصلاة، ، باب الإمامة،١ / ٥٨٨،   ط:  دار الفكر)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

(و) لا (قادر على ركوع وسجود بعاجز عنهما) ؛ لبناء القوي على الضعيف.

(قوله: بعاجز عنهما) أي بمن يومئ بهما قائماً أو قاعداً، بخلاف ما لو أمكناه قاعداً فصحيح كما سيأتي. قال ط: والعبرة للعجز عن السجود، حتى لو عجز عنه وقدر على الركوع أومأ".

(كتاب الصلاة،  باب الإمامة، ١ / ٥٧٩،  ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں